جنگ نرم رہبر معظم انقلاب کی نگاہ میں

 

 

مفہوم جنگ نرم

نرم جنگ یا سافٹ وار سے مراد ایسی کثیر الجہتی جنگ ھے جو مختلف پیچیدہ ثقافتی وساٰیل [جھوٹ‘ پروپیگنڈہ‘ میڈیاوار] کے ذریعے دینی انقلابی افراد اور سماج کے نظریات کو مشکوک بنا دے۔ ۱ 

 

سافٹ وار کی نوعیت:
آج یہ بات سب پر واضح ہوچکی ہے کہ عالمی استکبار کے نظام اسلامی جمہوری ایران سے مقابلے کی نوعیت انقلاب کی پہلی دہائی جیسی نہیں ہے۔ انقلاب کے آغاز میں استکبار نے آٹھ سالہ جنگ تحمیلی(مسلّط کردہ جنگ) کے ذریعے زورآزمائی کی۔ نظام انقلاب کو داخلی طور پر کمزور کرنے کے لیے بغاوت اور شورش کو ہوا دینے کی کوشش کی لیکن اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ آج دشمن ہارڈ وار یا عسکری جارحیت کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ آج نظام انقلاب کے بارے میں دشمن اپنی جنگی ترجیحات بدلنے پر مجبور ہوا ہے۔ آج عالمی استکبار کی اسٹرٹیجی نرم جنگ کی ہے جہاں جدید مواصلاتی اور ثقافتی وسائل (میڈیا وار،سائبروار )سے لیس پروپیگنڈے کے ذریعے دینی معاشرے میں حاکم انقلابی افکار کو تنقید کا نشانہ بنا کر نظام کی بیخ کنی کے در پے ہیں۔گویا جنگ نرم دشمن کے جدید جنگی تحرک کا حامل پلان ہے جیس کے بارے میں ہمیں ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔

 

استکبار کا مطلب:

استکبار سے مراد صرف امریکہ اور یورپی مماک نہیں ہے بلکہ ایک وسیع نیٹ ورک کا نام ہے جس میں یہ ممالک بھی آتے ہیں۔ عالمی صہیونی تاجروں اور مالی مراکز پر مشتمل نیٹ ورک جو عالمی وسائل پر قبضہ جما کر کثیر الجہتی پیچیدہ استبدادی ہتھکنڈوں کے ذریعے قوموں کا استحصال کرتا ہے اور عالمی سیاست کو اپنے کنٹرول میں رکھنیے کے لیے مذموم منصوبہ بندی کرتا ہے اور کٹھ پتلی حکومتیں تشکیل دیتا ہے۔

 

امریکہ اور یورپی ممالک پر مشتمل استکباری مجموعے کو بصیرت کے حامل آپ انقلابی جوان شکست دے سکتے ہیں جس کے لیے آپ کو علمی، معاشی اور سکیورٹی کے میدان میں ترقی حاصل کرنا ہوگی تا کہ ملک اور نظام کو ناقابل تسخیر سطح تک پہنچا سکیں۔
یہی وجہ ہے کہ ان چند سالون میں یونیورسٹیز کو سائنسی تحقیقق، اختراع،سافٹ ویئر موومنٹ اور انڈسٹری کے موضوعات پر کام کرنے کی مسلسل تاکید کر رہا ہوں، خاص طور سے انڈسٹری اور جامعات (یونیورسٹیز) کا باہمی رابطہ مستحکم ہونا چاہیے۔ کیونکہ سائنسی پیشرفت، کسی بھی قوم اور ملک کی طویل المدت سکیورٹی کی ضامن ہوتی ہے۔ ۲


انقلاب کے خلاف ثقافتی یلغار کا سبب:

دشمن کی نگاہ میں انقلاب کے خلاف ثقافتی یلغار کی دلیل یہ ہے کہ مغربی ایشیا جیسے حساس اور سٹریٹیجک خطے میں عالمی استکبار کے تسلّط پسندانہ اور ظالمانہ نظام کے خلاف انقلاب ایک طاقتور حریف کے طور پر ابھرا ہے اور استکبار کے توسیع پسندانہ مفادات کو چیلینجز سے دوچار کر رہا ہے۔
مغربی ایشیا جغرافیائی اعتبار سے انتہائی حسّاس خطہ ہے جہاں خلیج فارس، بحیرہ احمر(red sea)، شمالی آفریقا، اور میڈیٹیرین سی کے علاوہ خلیجی ممالک کامجموعہ وجود رکھتا ہے۔ دنیا کی چھے بڑی آبیِ گزرگاہوں میں سے حیاتی اہمیت کی حامل تین گزرگاہیں مغربی ایشیا میں پائی جاتی ہیں۔ آبنائے ہرمز، نہر سوئز، اور باب‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌المندب. عالمی تجارت کا سارا دارومدار ان تینوں گزرگاہوں پر ہے. عالمی نقشے پر نگاہ کرنے سے معلوم ہوجائے گا کہ تمام بین الاقوامی تجارتی اور معاشی رابطوں کے لیے یہ گزرگاہیں کس قدر اہمیت کی حامل ہیں۔ اس حساس خطے میں ایک ایسی طاقت زور پکڑ رہی ہے جو عالمی استکبار کے مذموم مقاصد کے حامل معاشی نیٹ ورک کو چیلینج کر رہی ہے۔ خطے میں ایسی طاقت کا وجود عالمی استکبار اور اس کے مقامی چیلوں کو یقینا گوارا نہیں۔


دشمن کی جنگ نرم کے اہداف

انقلابی ارادوں کو کمزور کر دینا:

آج دشمن کا پلان یہ ہے کہ انقلابی ارادوں کے حامل افراد کے جنگی تخمینوں اور منصوبوں کو تبدیل کردیا جائے۔ مختلف معاشی پابندیوں اور پرپپیگنڈوں کے ذریعے دباو ڈال کر انقلاب اسلامی کے مسؤلین کو اس بات پر مجبور کر دیں کہ وہ اسکتبار کے مقابلے میں لچک دکھانے کو ہی صلاح سمجھیں۔ دشمن کی تمام تر کوشش یہی ہے کہ مقاومت کے راستے کو چھوڑ کر استکبار سے مسالمت کی راہ اپنا لیں۔ ایک عرصہ پہلے بعض افراد یہ کہنے لگے کہ آقا فلسطین اور اسرائیل کے مسئلے کو چھوڑیں، عالمی ایشوز میں عدالت کی رعایت کے مطالبے سے دستبردار ہو جایئں۔ انصاف پسند اقوام عالم کا ساتھ نہ دیں۔(اس طرح کی باتیں کرنے والوں کا مقصد یہی ہے کہ ہم انقلاب اور نظام اسلامی کی ریڈ لائنز( بنیادی اصول اور اہداف) پر سمجھوتہ کریں۔ گویادشمن کے آگے تسلیم ہوجائیں۔ نہیں ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ دشمن یہی چاہتا ہے کہ راہ مقاومت کو چھوڑیں۔ یہی تو استکبار کی جنگی چال ہے۔)۳


جنگ نرم کے ہتھیار

(1 اختلاف کے ذریعے عوام میں بدبینی پیدا کرنا:
جنگ نرم کے ہتھیاروں سے میں سے ایک نہایت خطرناک ہتھیار، کسی معاشرے کے افراد کے درمیان اختلافات کو ہوا دے کر نفرت اور بدبینی پیدا کرنا۔ مختلف بہانوں سے اختلافی ایشوز گھڑ لیتے ہیں جس کے نتیجے میں راٗی عامہ انتشار سے دوچار ہوتی ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف منافرت پھیلا کر لاشعوری طور پر دشمن کے لیے استعمال ہوجاتے ہیں۔


(2 حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا (مایوسی پھیلانا):

جنگ نرم کا ایک اہم عنصر یہ ہے کہ حالات و واقعات کو دگرگوں اور غیرمستحکم دکھا کر عوام کے اندر مایوسی اور ناامیدی پیداکرنا۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے میڈیا وار لانچ کی جاتی ہے۔ پروپیگنڈے کے نت نئے ( انٹرنیٹ کے ذرائع سے لے کر صوتی اور تصویری) طریقے استعمال میں لا کر رای عامّہ کو نظام اسلامی کے خلاف ابھارنا چاہتے ہیں۔ ملکی معاشی مسائل کے بارے میں بے یقینی اور ناامیدی پھیلا کر عوام کو نظام سے مایوس کرنا چاہتے ہیں۔ البتہ یہ میڈیاوار دشمن کی کمزوری کی دلیل ہے۔ کیونکہ دشمن حقائق کی دنیا میں مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔ جب بھی دشمن اصلی میدان میں مقابلہ کرنے کی پوزیشن کھو بیٹھتا ہے تو وہ وسیع پروپیگنڈے کا سہارا لیتا ہے۔ یہ دشمن کی نفسیاتی(سافٹ وار) شکست کی واضح دلیل ہے۔ آج دشمن انقلاب کی عظیم حرکت اور عوام کی استقامت کے سامنے بے بس ہوچکا ہے۔۴


 (3افواہ سازی :
آج دشمن کی سافٹ وار کا نہایت اہم ہتھیار افواہ سازی ہے۔ آج دشمن کی طاقت کاراز نیوکلئیر ٹیکنالوجی میں نہیں ہے بلکہ مضبوط معیشت اور میڈیا (پروپیگنڈا) وار میں پوشیدہ ہے۔ مؤثر ترین نشریاتی افواہ سازی کے ذریعے عالمی معاشرے پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ نشریاتی اداروں کے ذریعے اپنی اواز کو پوری دنیا میں پہنچاتے ہیں۔ جھوٹی خبروں کے انبار لگا کر معاشرتی فضا کو عدم استحکام سے دوچار کر دیتے ہیں۔ ہمیں دشمن کے اس ہتھیار کی طرف متوجہ رہنا چاہیے۔آج ہمارے جوانوں کی ذمّہ داریاں اس لحاظ سے بڑھ گئی ہیں۔ یہ نہایت سنگین ذمّہ داری ہے کہ افواہ سازی کے ماحول میں حقیقت کی درست تشخیص اور شناخت فراہم کی جائے۔ ملکی فضا اور ماحول کو بھی اپنے ساتھ با بصیرت بنایئں اور ان پر بھی حقائق کو واضح کرے تا کہ کسی قسم کا ابھام باقی نہ رہے۔۵


میدان جنگ نرم کے سپاہی:

آج نظام انقلاب اسلامی کو بہت بڑی جنگ کا سامنا ہے۔ الحمدللَّہ آپ جوانان جنگ نرم کے بارے میں آگاہی رکھتے ہیں۔ یہ میرے لیے خوشی کی بات ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کن لوگوں کو جنگ نرم کے میدان میں اترنا چاہیے؟

واضح سی بات ہے کہ فکری ماہرین(تھینک ٹینکس) ہی اس میدان کے اصل سپاہی ہیں۔ یعنی آپ جوان آفیسرز جنگ نرم کے محاذ کو سنبھالیں۔ اپنے فکری حلقوں میں اس حوالے سے منصوبہ بندی کریں، پالیسیز مرتب کریں۔ جنگ نرم کا ہدف معین ہے اور وہ یہ ہے کہ اسلامی نظام اور جمہوری اسلامی کا دفاع کرنا ہے۔اور دشمن کی ہمہ جانبہ (طاقت، سازش اور جدید وسائل سے آراستہ ) شیطانی مہم کا مقابلہ کرنا ہے۔ دشمن کی طرف سے ہمیں چیلینجز کا سامنا ہے۔ لیکن خداوند متعال کی قدرت کا کرشمہ دیکھیں کہ وہ اپنے اہداف کی طرف ہماری ہدایت فرما رہا ہے۔ جب انسان ایک وسیع افق یا ویژن سے مسائل کا تجزیہ کرتا ہے تو قدرت الہی کا مشاہدہ کرتا ہے۔ یہ خدا کی ذات ہی ہے جو میں اور آپ کو درست راستے پر گامزن کر رہی ہے.


دشمن کے خلاف جنگ نرم کا ہتھیار:

بصیرت:
دشمن کے اس مہلک ہتھیار کا توڑ صرف اور صرف بصیرت ہے۔ یعنی دشمن کی چالوں کو سمجھ کر بروقت درست اقدام کرنا۔ جو لوگ صاحب بصیرت ہیں ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ دشمن کی چالوں کو درست تجزیہ و تحلیل کے ساتھ بیان کرے۔ یعنی تمام میدانوں میں پوری تیاری اور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ دشمن کی کثیر الجہتی (نفسیاتی، اخلاقی، ثقافتی، سیاسی، مذہبی) سازشوں کا مقابلہ کرنا اہم دینیِ و قومی فریضہ ہے۔ جنگ نرم کا میدان، عمّار یاسر جیسی بصیرت اور مالك‌اشتر جیسی استقامت چاہتا ہے۔ پوری طاقت کے ساتھ اپنے آپ کو اس میدان کے لیے تیّار کریں۔۶


مجاہدانہ کلچر ترویج دینےکی ضرورت:
محاذ حق کی تقویت کے لیے یونیورسٹیز میں مجاہدت(کوشش و محنت) کے کلچر کو فروغ دینےکی ضرورت ہے۔ یعنی معنوی اور اخلاقی ثقافت کی ترویج کی جائے۔ معنوی فضا سازی کے لیے یونیورسٹیز کے اساتذہ اہم رول ادا کر سکتے ہیں۔ یہ وہی لیڈنگ رول ہے جو جنگ نرم میں انجام پانا چاہیے۔ اساتیذ جنگ نرم کے کمانڈرز ہیں۔۷


سافٹ وار میں جوانوں (یونیورسٹیز کے طلبا) کا کردار:

جنگ نرم میں آپ جوانوں کا کردار مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔ اب یونیورسٹیز کے طلبا یہ سوال نہ کریں کہ آج کی مسجد ضرار (جدید منافقت)کو ڈھانے کے لیے ہم کس طرح کا کردار ادا کریں؟ جائیے غور و فکر کریں اور اپنا ممکنہ کردار ادا کریں۔ سافٹ وار کے میدان میں آپ کی فعالیت کا بنیادی ترین عنصر امیدواری ہے۔ یعنی مسقبل کے بارے میں خوش بین اور پرامید رہیں۔آئندہ پیش آنے والے حالات کو مثبت زاویے سے دیکھیں۔ مسقبل کے بارے میں بدبین اور مایوس کن زاویہ نگاہ مت رکھیں۔ پرامید ہونے کا مطلب خیالی امیدواری نہیں ہے بلکہ بصیرت پر مبنی حقیقی امیدواری ہے۔ مایوسی اور بدبینی، انسان کو بے عملی کی طرف لے جاتی ہے، جس کے نتیجے میں سستی اور گوشہ نشینی اس کا مقدر ٹھرتی ہے۔ یوں انسان تحرّک اور فعالیت سے محروم ہو کر اپنی بے عملی کے ذریعے دشمن کے اہداف کو پورا کرتا ہے۔ دشمن چاہتا ہے کہ انقلابی جوان مایوسی کا شکار ہوں تاکہ وہ اپنے مذموم عزائم میں کامیاب ہوجائے۔۸

آج ہمیں جنگ نرم کا سامنا ہے۔ اس جنگ کے اصلی سپاہی آپ جوان طلبا اور جوان آفیسرز ہیں۔
سربازان (رسمی فوجی جوان) اس محاذ کے اصلی سپاہی نہیں ہیں۔ کیونکہ سرباز فقط عسکری احکامات کا پابند ہوتا ہے۔ یعنی اپنی طرف سے کسی فیصلے یا ارادے کا اختیار نہیں رکھتا بلکہ کمانڈر(سینئر) کے حکم کا پابند ہوتا ہے۔ عسکری حکام بھی اس جنگ کے مرکزی سپاہی نہیں ہیں۔ کیونکہ وہ بڑی سطح کی عسکری منصوبہ بندی اور پلاننگ کرتے ہیں۔ آپ جوان آفیسرز میدان میں ہیں اور میدان پر گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ حالات کا قریب سے مشاہدہ کرتے ہیں۔ اس لیے پورے دل و جان کے ساتھ میدان کا عملی تجربہ کرتتے ہیں ۔ یعنی جوان آفیسرز پلاننگ اور عمل (پلاننگ کو عملی شکل دینے) کا اختیار بھی رکھتے ہیں۔

 

سافٹ وار میں اساتذہ کا کردار:

جنگ نرم میں اساتذہ کا جو کردار بنتا ہے وہ کمانڈنگ رول(قائدانہ کردار) ہے۔اساتذہ کی ذمّہ داری یہ ہے کہ بڑی سطح کے مسائل کو دیکھیں اور دشمن کو درست انداز سے پہچنوائیں۔ دشمن کے پوشیدہ اہداف کو کشف کریں۔ دشمن کی تنصیبات کا گہرا مطالعہ کر کے وسیع اور دقیق پلاننگ ترتیب دیں اور اس پلاننگ کی بنیاد پر اپنے اہداف کی طرف حرکت کریں۔۹

 

متعلقہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *