دنیا کے تمام فلسفے جن کے بارے میں بحث کرتے ہیں وہ ”خدا“، ”کائنات“ ”انسان“ ہیں بعض ”کائنات“ کے بارے میں زیادہ تر بحث کرتے ہیں اور بعض انسان کے بارے میں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اجزائے عالم میں انسان کو کیا خصوصیت اور کیا امتیاز حاصل ہے کہ ہم نے کائنات اور انسان کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا ہے؟ کیا انسان کائنات سے جدا ہے؟ ہاں! انسان کائنات کا جزو ہے لیکن دیگر تمام اجزاء سے بہت مختلف ہے یا یوں کہئے اس میں ایسی ایسی پیچیدگیاں ہیں کہ جو کائنات کی دیگر اکائیوں اور اجزاء سے زیادہ توحید و تفسیر کی محتاج ہیں۔ مزید پڑھیں
دین اور شریعتوں کےبارے میں قرآن نظریہ از شھید مطہری
علم دین سے تعلق رکھنے والے علماء اور مذاہب کی تاریخ لکھنے والے عام طور سے ادیان کے بارے میں بحث کرتے ہوئے دین ابراہیمؑ، دین یہود، دین مسیحی اور دین اسلام کی بات کرتے ہیں گویا ہر ایک صاحب شریعت پیغمبر کو ایک علیحدہ دین لانے والا سمجھتے ہیں عام لوگوں کے درمیان بھی یہی اصطلاح رائج ہے۔ لیکن مزید پڑھیں
رسول اکرمؐ کا منافقین کے ساتھ برتاو از رہبر انقلاب
سرور کائناتﷺ حملے کی تاک میں رہنے والے منصوبی ساز دشمن کو امان نہیں دیتے تھے اور اس کے ساتھ وہ رویہ اختیار کرتے تھے جو آپؐ نے یہودیوں کے ساتھ اختیار کیا، لیکن جو دشمن منصوبہ بندی نہیں کرتے تھے اور جن کی بے ایمانی، خباثت اور ہٹ دھرمی انفرادی تھی، نبی رحمت ﷺ انہیں برداشت کر لیا کرتے تھے۔ مزید پڑھیں
اس لفظ کا انسانوں پر اطلاق ہوتا ہے اور لفظ ”فطرت“طبیعت اور غریزہ کی طرح ایک تکوینی مفہوم رکھتا ہے یعنی انسان کی سرشت کا ایک حصہ ہے۔ تکوینی سے ہماری مراد یہ ہے کہ یہ ایک اکتسابی یا کسبی نہیں ہے یہ ”غریزہ“ سے بالاتر ایک آگاہانہ چیز ہے۔ انسان جو کچھ جانتا ہے وہ اپنے اس علم کے بارے میں آگاہی حاصل کر سکتا ہے یعنی انسان کچھ ”فطریات“ کا حامل ہے اور یہ جانتا ہے کہ اس میں کچھ فطریات (فطری جبلتیں) ہیں۔ فطریات“ کا ”غریزہ“ سے ایک اور فرق یہ ہے کہ غریزہ کا تعلق حیوان کی مادی زندگی سے ہے جبکہ انسان کی ”فطریات“ ایسے امور سے مربوط ہے جنہیں ہم امور استثنائی کہتے ہیں یعنی حیوانی امور سے ہٹ کر۔ مزید پڑھیں
اسوہ حسنہ از رہبر انقلاب (مقالہ+پوسٹرز+ویڈیو)
ہر چیز میں اسوہ اللہ تعالیٰ نے ہم مسلمانوں کو نبی کی پیروی کا حکم دیا۔ یہ پیروی زندگی کے تمام پہلوؤں میں ہے۔ وہ عظیم ایک رول ماڈل اور ہر چیز میں ایک اسوہ ہیں اور نہ صرف کلام میں، بلکہ اپنے طرز عمل میں ، طرز زندگی میں ، لوگوں اور گھرانے کے ساتھ برتاؤ کرنے میں، اور دوستوں کے ساتھ ان کے برتاؤ میں ، اور دشمنوں اور اجنبیوں کے ساتھ اس کے سلوک میں ، اور محروموں اور اغنیاء کے ساتھ ان رویے میں! ہمارا اسلامی معاشرہ حقیقی معنوں میں ایک مکمل اسلامی معاشرہ بن جائے گا، اگت یہ رسول اللہ (ص) کے طرز عمل کے مطابق ڈھل جائے۔ مزید پڑھیں
آپ نے سنا ہوا ہے کہ انبیاء اور ائمہ علیہم السلام معصوم ہوتے ہیں۔ اگر آپ سے پوچھا جائے کہ انبیاء اور ائمہ معصوم ہونے کے کیا معنی ہیں؟ تو آپ اس کا جواب دیں گے کہ وہ کبھی کسی بھی صورت میں گناہ کے مرتکب نہیں ہوتے۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ انبیاء اور ائمہ علیہم السلام گناہ کیوں نہیں کرتے؟ تو ممکن ہے آپ اس کا جواب دو طرح سے دیں۔ ایک یہ کہ انبیاء اور ائمہ علیہم السلام اس وجہ سے گناہ نہیں کرتے کہ خدا وند عالم نے انہیں بالجبر گناہ اور معصیت سے روکا ہوا ہے۔ یعنی جب کبھی وہ گناہ کرنا چاہتے ہیں تو خدا رکاوٹ کھڑی کر دیتا ہے اور ان کا راستہ روک دیتا ہے۔ مزید پڑھیں
انہیں پیغمبر اکرمﷺ کی زوجہ ہونے کا جو شرف حاصل ہے وہ حد درجہ اہمیت کا حامل ہے، اس لئے کہ رسول اکرمﷺکی دوسری ازواج کو بھی ہمسری کا شرف تو حاصل رہا ہے لیکن انہون نے سرور کائنات ﷺکی رسالت کے نہایت سنگین اور کٹھن دور کو نہیں دیکھا۔حضور اکرمﷺ کی دوسری ازواج نے مدینہ کا دس سالہ زمانہ پایا جو کہ عزت و احترام کا دور تھا، مکے کے دور کی نسبت یہاں زندگی آسان تھی۔ مزید پڑھیں
انبیاء علیہم السلام کے مبعوث ہونے کا اصل مقصد کیا تھا؟ دوسرے الفاظ میں رسولوں کے بھیجنے اور کتابوں کے نازل کرنے کی غایت نہائی کیا تھی؟ پیغمبروں کا حرف آخر کیا ہے؟ ممکن ہے یہ کہا جائے کہ اصل ہدف و مقصد لوگوں کو ہدایت لوگوں کی سعادت و خوش بختی لوگوں کی نجات اور لوگوں کی فلاح و بہبود ہے۔ مزید پڑھیں
امام حسن علیہ السلام كے دور امامت میں فضا اتنی مكدر تھی كہ صلح كے بغیر كوئی چارہ كار نہ تھا، گویا آپ صلح كرنے پر مجبور ھوگئے تھے۔ لیكن امام حسین علیہ السلام كے دور میں زمین و آسمان كا فرق تھا۔ سب سے پھلا فرق تو یہ ھے كہ امام حسن علیہ السلام اس وقت مسند خلافت پر تشریف فرما ھوئے تو اس وقت معاویہ مضبوط ترین پوزیش بنا چكا تھا۔ حضرت علی علیہ السلام نے زندگی میں كس طرح كی صعوبتیں اور سختیاں برداشت كیں پھر آپ كو كس بے دردی اور مظلومیت كے ساتھ شھید كردیا گیا۔ مزید پڑھیں
احادیث میں آیا ہے کہ زنان عالم میں سے کامل ترین عورتیں صرف چار ہیں، جن میں سے دو کا تعلق گذشتہ امتوں سے ہے کہ ان میں سے ایک فرعون کی بیوی ہیں، کہتے ہیں ان کا نام آسیہ تھا اور دوسری خاتون حضرت مریم، مارد حضرت عیسیؑ ہیں۔یہ بات عرض کرچکا ہوں کہ یہ خواتین، عظمت کی بلندیوں پر فائز تھیں اور نہایت اعلی درجے کے ایمان کی حامل ہیں ورنہ قرآن مجید نے حضرت مریمؑ کی مادر گرامی کی بھی توصیف فرمائی ہے لیکن خود حضرت مریم س جتنی توصیف ان کی بیان نہیں ہوئی ہے۔اور زنان عالم میں سے دو خواتین کا تعلق اسلام سے ہے کہ جو ایمان کے اعلی درجے پر فائز ہیں۔ ایک حضرت خدیجہؑ بنت خُوَيْلَد ہیں اور دوسری حضرت زہرا سلام اللہ علیہا۔ مزید پڑھیں