سوشل میڈیا کا غلط استعمال اور اسکے سماجی اثرات از رہبر انقلاب
امام موسیٰ کاظمؑ، منظم و مظلومانہ جدوجہد! از رہبر انقلاب آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای
چار ظالم خلفاء کا مقابلہ
چار خلیفہ امام موسیٰ کاظمؑ کی امامت کے پینتیس سالوں کے دوران مسند خلافت پر آئے۔ ایک منصور عباسی ہے ، جو امامؑ کی امامت کے پہلے دس سال تک اقتدار میں رہا، پھر اس کا بیٹا مہدی ہے جس نے بھی دس سال تک خلافت کی، پھر مہدی ہادی عباسی کا بیٹا جس نے ایک سال تک خلافت کی۔ پھر اس کے بعد ہارون الرشیدہے کہ ھارون کی خلافت کے زمانے میں تقریبا بارہ ، تیرہ سال موسیٰ ابن جعفر (ع) امامت کی تبلیغ اور اس کی طرف دعوت میں مشغول رہے۔ چاروں خلفاء میں سے ہر ایک نے موسیٰ ابن جعفر پر بہت دباؤ ڈالا۔
موسیٰ ابن جعفر نے یقینا ایک خاص دور چھپ کر گزارا، ایک مخفیانہ زندگی کہ معلوم نہیں تھا کہ آپؑ کہاں ہیں!
منظم جدوجہد!
آج ہم موسیٰ بن جعفر کی طرف دیکھتے ہیں، ہم خیال کرتے ہیں کہ آپؑ مدینہ میں مظلوم سر کو جھکائے ہوئے شخس تھے، اور کارندے آئے اور وہ انہیں گھسیٹ کر لے گئے بغداد میں،یا کوفہ میں، یا فلانہ جگہ، یا بصرہ میں قید کرلیااور پھر زہر دیدیا اور دنیا سے رخصت ہوگئے اور بس! قصہ یہ نہیں تھا۔ یہ ایک طویل جدوجہد ، منظم جدوجہد ، تمام اسلامی مملکت میں پھیلے ہوئے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے ہمراہ مبارزہ تھا۔ موسیٰ ابن جعفر کے پاس ایسے لوگ تھے جو ان سے محبت رکھتے تھے!
نظام خلافت کے مقابلے پر نظام امامت
جب امام کاظمؑ کے ناخلف بھتیجے نے، جو دربار سے وابسطہ میں سے تھا، ہارون سے امام موسیٰ کاظمؑ کے بارے میں بات کی تو اس کی تعبیر یہ تھی ، «خلیفتان یجبی الیہ ما الخراج»؛ ہروں تم یہ خٰال نہ کرو کہ صرف تم اسلامی معاشرے میں موجود خلیفہ ہو جس کو لوگ ٹیکس دیتے ہیں، کوائف ادا کرتے ہیں۔ دو خلیفہ ہیں! ایک تو ہے اور ایک موسیٰ بن جعفؑر۔ لوگ تجھ کو بھی ٹیکس دیتے ہیں، کوائف کی ادائیگی کرتے ہیں۔ وہ موسیٰ ابن جعفرؑ کو بھی ٹیکس دیتے ہیں، کوائف ادا کرتے ہیں، اور یہ ایک حقیقت تھی! اس نے یہ خباثت میں کہا۔ وہ تھمت لگانا چاہتا تھا لیکن یہ ایک حقیقت تھی۔
مجاہد و مبارز امام!
خلافت کے لئے موسیٰ ابن جعفر کا خطرہ ایک ایسے عظیم قائد کا خطرہ تھا جس کے پاس وسیع علم تھا جو تقویٰ اور عبودیت کا حامل ہے کہ جو بھی انہیں جانتا ہے اسے اس بات کا پتہ ہے۔ پوری اسلامی دنیا میں اسکے چاہنے والے اور دوست موجود ہیں۔ اس میں ایسی شجاعت ہے کہ وہ اپنے سامنے کسی طاقت سے خوفزدہ نہیں ہوتا۔ اسی لئے وہ ہارون کی بظاہر عظیم بادشاہت کے سامنے بے خوف و خطر بولتا ہے۔ ایک ایسی مبارز، مجاہد، خدا سے متصل، پرہیزگار اور جدا پر توکل کرنے والی شخصیت، پوری مسلم دنیا میں چاہنے والوں کے ہوتے ہوئے اور اسلامی نظامِ حکمرانی کو نافذ کرنے کے منصوبے کو ساتھ لئے ہوئے، ہارون کی حکمرانی کے لئے یہ سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ لہذا ہارون نے اس خطرے کو اپنے راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا۔
مجاہدانہ و مظلومانہ شہادت!
ظالموں نے امام کو اس حالت میں زہر دے کر شہید کر دیا جب آپ ؑ کے ہاتھ اور گردن طوق و زنجیروں سے جکڑے ہوئے تھے اور اسی حالت میں آپؑ کی روح پر فتوح نے قید خانے میں ملکوت اعلیٰ کی طرف پرواز کی لیکن اس کے باوجود ظالم حکمران آپ ؑ سے ڈرتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب قید خانے سے آپ ؑ کا جنازہ باہر نکالا جارہا تھا تووہ یہ اعلان کر تے جارہے تھے کہ یہ اس شخص کا جنازہ ہے جس نے حکومت وقت کے خلاف بغاوت کی تھی۔