فاطمہ زہرا س، خیر کثیر اور ہماری ذمہ داریاں!

بسم اللہ الرحمن الرحیم انّا اعطینک الکوثر۔ فصل لربّک وانحر۔انّ شانئک ھوالابتر۔ (سورہ کوثر)

بشریت، فاطمہ زہرا کی مرہون منت

ہم سیدۂ دو عالم کی معرفت اور آپ سے محبت و عقیدت کے دعویدارہیں اور ہم نے خود اپنی زندگی کے تمام ایام میں اور زندگی کے مختلف جلووں میں حضرت فاطمۂ زہرا( سلام اللہ علیہا) کی برکات کا مشاہدہ کیا ہے۔ ان شاء اللہ زندگی میں ہمیشہ اور مرنے کے بعد بھی ان برکتوں اور رحمتوں کا مشاہدہ اور احساس کریں اور ان انوار مطہرہ کے تمام چاہنے والے ان سے مستفیض ہوں۔

حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے فیوضات ایک چھوٹے سے مجموعے میں جو پوری انسانیت کے مجموعے کے مقابلے میں چھوٹا شمار ہوتا ہے، محدود نہیں ہو سکتے۔ اگر ایک حقیقت پسندانہ اور منطقی نگاہ ڈالیں تو پوری بشریت حضرت فاطمہ زہرا کی ممنون احسان نظر آئے گی۔ یہ مبالغہ نہیں ہے۔ حقیقت ہے۔ بشریت جس طرح اسلام کی مرہون منت ہے، قرآن کی مرہون منت ہے، انبیااور پیغمبران خدا اور خاتم الانبیاء ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی مرہون منت ہے اسی طرح حضرت فاطمہ زہرا کی مرہون منت ہے۔ آج بھی اسی طرح ہے اورحضرت فاطمہ زہرا کی معنویت و نورانیت روز بروز آشکارا تر ہوگی اور بشریت اس کو زیادہ سے زیادہ محسوس کرے گی۔

 
 
مودّت اہلبیت اور ہماری ذمہ داری

جو ہمارا فریضہ ہے وہ یہ ہے کہ خود کو اس خاندان کے ( محب ہونے کے) لائق بنائیں۔ یقینا خاندان رسالت اور اس خاندان سے وابستہ افراد سے منسوب ہونا اور ان کے عقیدت مند کے طور پر معروف ہونا دشوار ہے۔ ہم زیارت میں پڑھتے ہیں کہ ہم آپ سے محبت اور آپ کی دوستی سے پہچانے جاتے ہیں۔ اس سے ہمارے کندھوں پر ذمہ
داریاں زیادہ ہو جاتی ہے۔

 
فاطمہ زہرا س، خیر کثیر

یہ خیر کثیر جس کی خوش خبری خداوند عالم نے اپنے پیغمبر کو اس سورہ مبارکہ میں دی اور فرمایا کہ انّا اعطینک الکوثر جس سے مراد حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) ہیں، درحقیقت تمام نیکیوں اور خیر کا مجموعہ ہے کہ دین نبوی کے سرچشمے سے پوری بشریت اور تمام خلائق کے لئے جاری ہے۔ بہت سوں نے اس کو چھپانے اور اس کی نفی کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوئے۔ واللہ متم نورہ ولو کرہ الکافرون

 
عمل، ولایت اور ایمان کا لازمہ!

ہمیں خود کو اس مرکز نور سے قریب کرنا چاہئے اور مرکز نور سے قریب ہونے کے لئے نورانی ہونا شرط ہے۔ صرف محبت کے دعوے سے نہیں بلکہ عمل کے ذریعےخود کو نورانی بنائیں۔ وہ عمل جو محبت، ولایت اور ایمان کا لازمہ اور تقاضا ہے۔ اپنے عمل کے ذریعے اس خاندان سے خود کو وابستہ کریں۔ علی (علیہ السلام ) کے گھر کا غلام بننا، قنبر بننا آسان نہیں ہے۔ سلمان منا اہل البیت بننا آسان نہیں ہے۔ ہم اہلبیت اطہار(علیہم السلام) کے محب اور شیعہ ان ہستیوں سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ ہمیں خود سے وابستہ اور اپنے مقربین میں شامل کر لیں۔ فلان زگوشہ نشینان خاک درگہ ماست  ہمارا دل چاہتا ہے کہ اہل بیت ہمارے بارے میں یہ فیصلہ کریں۔ لیکن یہ آسان نہیں ہے۔ یہ چیز صرف زبانی دعوے سے حاصل نہیں ہوتی۔ اس کے لئے عمل، فداکاری، ایثار اور ان ہستیوں جیسا بننے اور ان کے اخلاق و کردار کو اپنانے کی ضرورت ہے۔

متعلقہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *