مفلوج امریکہ، آج بھی قبلہ گاہ! امام خامنہ ای

امریکا کی آج کی حالت اور اب بھی بعض کا قبلہ گاہ

آج آپ امریکا کی صورتحال دیکھ رہے ہیں۔ بڑے بت کی آج کی حالت اور صورتحال آپ دیکھ رہے ہیں! یہ اس کی ڈیموکریسی ہے، یہ اس کی انتخابی فضیحت ہے، یہ اس کے انسانی حقوق ہیں، ایسے انسانی حقوق کہ ہر کچھ گھنٹے میں ایک بار یا کم از کم ہر کچھ دن میں ایک بار ایک سیاہ فام کو بلا وجہ، بے قصور سڑک پر قتل کر دیا جاتا ہے اور اس کے قاتل کا کچھ نہیں بگڑتا۔ یہ اس کے اقدار ہیں جس کا مسلسل شور مچایا جاتا ہے، “امریکی اقدار، امریکی اقدار” اور آج یہ اقدار پوری دنیا میں مذاق بن کر رہ گئے ہیں۔ یہاں تک کہ امریکا کے دوست بھی ان کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ ادھر اس کی مفلوج معیشت ہے۔ امریکی معیشت حقیقی معنی میں مفلوج ہے، کروڑوں لوگ بے روزگار، بھوکے اور بے گھر ہیں۔ یہ امریکا کی آج کی حالت ہے۔ یہ واقعی اہم چیز ہے لیکن اس سے بھی عجیب بات یہ ہے کہ اب بھی بعض افراد امریکا کو ہی اپنی قبلہ گاہ سمجھتے ہیں، اب بھی ان کی امیدوں اور آرزوؤں کا مرکز امریکا ہے۔ وہ امریکا جس کی ایسی حالت ہے۔

 

امریکا سے تعاون کریں؟

کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ اگر ہم امریکا سے تعاون کریں ، اگر اس سے آشتی کر لیں، اس سے دوستی کر لیں تو ملک کی صورتحال بہشت بریں جیسی ہو جائے گي۔ نہیں، انقلاب سے پہلے کی صورتحال کو دیکھیے کہ کیسی ہے۔ ان ملکوں کو دیکھیے جو اس وقت امریکا کے سامنے بچھے جا رہے ہیں، دیکھیے کہ ان کی حالت کیسی ہے؟ یہ ان کی معاشی حالت ہے اور وہ ان کی علمی صورتحال ہے۔ ہمارے اپنے اسی خطے میں بھی ایسے ممالک ہیں جن کا نام میں نہیں لوں گا، آپ خود جانتے ہیں۔

امریکی سیاست، خطے میں عدم استحکام

امریکا موجودہ حالات میں اپنا فائدہ اور اپنے مفادات، اس علاقے کے عدم استحکام میں دیکھتا ہے، جب تک کہ وہ اپنے آپ کو پوری طرح اس خطے پر مسلط نہ کر لے، اس سے پہلے تک امریکا کا فائدہ خطے میں عدم استحکام میں ہے۔ اسے وہ لوگ خود بھی کہتے ہیں، اس بات کا وہ لوگ برملا اظہار بھی کرتے ہیں۔ امریکا کے ایک مشہور تھنک ٹینک، انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ(9) کے ایک مشہور تجزیہ نگار نے، جس کا اگر میں نام لوں تو سیاست میں سرگرم بہت سے لوگ، اسے پہچان جائيں گے، کھل کر یہ بات کہی ہے۔ اس نے کہا کہ ہم ایران، عراق اور شام میں ثبات و استحکام کے خواہاں نہیں ہیں۔ اصل بات ان ملکوں میں عدم استحکام کی ضرورت یا عدم ضرورت نہیں ہے، یعنی واضح ہے کہ ان ملکوں میں عدم استحکام پیدا ہونا چاہیے، بلکہ ان ملکوں میں ہمارے مدنظر عدم استحکام پیدا کرنے کا طریقۂ کار ہے، عدم استحکام کس طرح پیدا کیا جائے۔ یہ کبھی کہیں پر داعش کے ذریعے، کبھی 2009 کے فتنے کے ذریعے اور خطے میں ان کے کاموں کے ذریعے جو آپ دیکھ رہے ہیں۔ وہ خطے میں عدم استحکام پیدا کرنا چاہتے ہیں۔

۲۰۰۹ کی سازش ۲۰۲۱ میں خود پر پلٹ آئی

اس پر طرہ یہ ہے کہ کوئي امریکی ہرزہ سرائی کرتا ہے کہ ایران، خطے میں عدم استحکام کا سبب ہے! جی نہیں، ہم استحکام کے ضامن ہیں، ہم امریکا کی جانب سے پیدا کیے جا رہے عدم استحکام کے مقابلے میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ سن 2009 میں امریکا چاہتا تھا کہ ایران میں عدم استحکام پیدا کرے، وہی بلا جو دو ہزار اکیس میں اس کے سر ٹوٹ پڑی۔ وہی کام جو ان دنوں بالخصوص پرسوں (10) واشنگٹن میں ہوا اور کچھ لوگ کانگریس میں گھس گئے، کانگریس کے اراکین کو خفیہ راہداریوں سے بھگا کر باہر نکالا گيا، یہی کام وہ ایران میں کرنا چاہتے تھے، وہ یہاں آشوب بپا کرنا چاہتے تھے، خانہ جنگي شروع کرانا چاہتے تھے لیکن خداوند عالم نے انھیں کامیاب نہیں ہونے دیا۔ سن 2009 وہ یہاں آشوب بپا کرنا چاہتے تھے، اب سن دو ہزار اکیس میں خداوند متعال نے یہ بلا انہی کے سر پر نازل کر دی۔

 

حوالہ: ۸ جنوری ، ۲۰۲۱ / قم کے عوام کے تاریخی قیام کی سالگرہ پر خطاب

 

متعلقہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *