شہید سردار قاسم سلیمانی کی ۱۲ خصوصیات امام خامنہ ای کی زبانی

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پچھلے ایک سال کے دوران اپنے بیانات میں، اسلامی قوم کے ہیرو ، شہید جنرل سلیمانی کی کچھ خصوصیات اور اقدامات کے بارے میں بات کی۔ جنرل کی برسی کے موقع پر عہد ولایت ویب پورٹل ان میں سے 12 اہم خصوصیات کا جائزہ لے رہا ہے۔

 

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا: “ٹھیک ہے ، ان دنوں ، اس عظیم شخصیت کے بارے میں بہت ساری باتیں کہی گئیں ، وہ ہمارے اچھے ، پیارے ، بہادر اور خوش نصیب ساتھی جو جنت چلے گئے۔ اور دوسروں نے ان کے اور ان کی شخصیت کی خصوصیات کے بارے میں جو کچھ کہا وہ صحیح ہے، لیکن میں بھی کچھ نکات پیش کرنا چاہتا ہوں جو میرے خیال میں اہم ہیں”:
  
۱) بہادر بھی تھے اور مدبر بھی۔۔۔ اور ساتھ ساتھ مرد عمل بھی!

شہید سلیمانی بہادر بھی تھے اور مدبر بھی تھے۔ صرف بہادری نہیں تھی، بعض لوگوں میں بہادری ہے لیکن اس شجاعت کو استعمال کرنے کے لیے ضروری عقل و تدبیر نہیں ہے۔ بعض لوگ مدبر ہیں لیکن عمل نہیں کر سکتے، قدم نہیں اٹھا سکتے، ان میں وہ کام کرنے کی ہمت نہیں ہے، جگر نہیں ہے۔ ہمارے اس شہید میں دل و جگر بھی تھا اور وہ ہچکچائے بغیر خطرے کے منہ میں چلے جاتے تھے، صرف ان دنوں کے ان واقعات میں نہیں بلکہ مقدس دفاع کے دوران بھی جب وہ ‘ثار اللہ ڈویژن’ کے کمانڈر تھے تب بھی ایسے ہی تھے۔ وہ بھی اور ان کی ڈویژن بھی۔ اسی کے ساتھ وہ مدبر بھی تھے، غور کرتے تھے، سوچتے تھے اور تدبیر کیا کرتے تھے، ان کے پاس اپنے کاموں کی منطق اور دلیل ہوتی تھی۔ یہ جڑواں شجاعت اور تدبیر صرف فوجی میدان میں نہیں تھی، میدان سیاست میں بھی ایسا ہی تھا۔ میں سیاسی میدان میں سرگرم دوستوں سے بارہا یہ بات کہا کرتا تھا۔ ان کے رویے کو اور ان کے کام کو دیکھا کرتا تھا۔ سیاست کے میدان میں بھی وہ شجاع بھی تھے اور مدبر بھی تھے۔ ان کی باتیں، اثر انگیز ہوتی تھیں، اطمینان بخش ہوتی تھیں، متاثر کن ہوتی تھیں اور ان سب سے بڑھ کر ان کا اخلاص تھا، وہ مخلص انسان تھے۔

۲) صرف خدا کیلئے

اپنی شجاعت اور تدبیر کو خدا کے لیے استعمال کرتے تھے۔ ان میں دکھاوے اور ریاکاری جیسی چیزیں نہیں تھیں۔ اخلاص بہت اہم ہے۔ ہمیں اپنے اندر اخلاص پیدا کرنے کی مشق کرنی چاہیے۔

۳) شریعت کی کامل پابندی

ان کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ وہ فوجی میدان میں ید طولی رکھنے والے ایک شجاع کمانڈر بھی تھے اور اسی کے ساتھ بڑی شدت کے ساتھ شرعی حدود کی بھی پابندی کرتے تھے۔ میدان جنگ میں کبھی کبھی لوگ، حدود الہی کو بھول جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ان باتوں کا وقت نہیں ہے۔ لیکن وہ ایسے نہیں تھے، وہ شرعی حدود کی شدت سے پابندی کرتے تھے۔ جہاں ہتھیار استعمال نہیں کرنا چاہیے، وہاں ہتھیار استعمال نہیں کرتے تھے۔ وہ اس کا بہت زیادہ خیال رکھتے تھے کہ کسی پر ظلم نہ ہونے پائے۔ جس طرح وہ احتیاط کیا کرتے تھے، اس طرح کی احتیاط کو فوجی میدان میں بہت سے لوگ ضروری نہیں سمجھتے لیکن وہ احتیاط سے کام لیتے تھے۔ وہ خود خطرے کے منہ میں چلے جاتے تھے لیکن دوسروں کی جان کی ممکنہ حد تک حفاظت کرتے تھے۔ وہ اپنے قریبیوں، اپنے اطراف والوں، اپنے سپاہیوں اور دیگر اقوام کے اپنے ساتھیوں کی جان کی حفاظت کا بہت خیال رکھتے تھے۔

۴) شدت کے ساتھ انقلابی، انقلاب اور انقلابیت ان کی ریڈ لائن

وہ کسی بھی طرح کی دھڑے بندی اور پارٹی بازی میں شامل نہیں تھے لیکن شدت کے ساتھ انقلابی تھے۔ انقلاب اور انقلابیت ان کی حتمی ریڈ لائن تھی۔ کچھ لوگ اس بات کو غیر اہم بنانے کی کوشش نہ کریں، یہ ان کی حقیقت ہے، وہ انقلاب میں پوری طرح سے جذب تھے۔ انقلابی ہونا ان کی ریڈ لائن تھی۔ وہ مختلف جماعتوں، مختلف ناموں اور مختلف دھڑوں کی تقسیم بندی والے انسان نہیں تھے لیکن انقلاب کی بات الگ ہے، وہ پوری طرح سے انقلاب کے پابند تھے، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے مبارک اور نورانی راستے کے پابند تھے۔

۵) مغربی ایشیا میں امریکہ کے سارے منصوبوں کا خاک میں ملانے والا

ان کی شجاعت اور تدبیر کا ایک نمونہ، جسے ان کے دشمن خوب جانتے ہیں، شاید ان کے بعض دوست نہ جانتے ہوں، یہ ہے کہ انھوں نے علاقائي اقوام کی مدد سے یا علاقائی اقوام کی انھوں نے جو مدد کی اس کے ذریعے مغربی ایشیا کے خطے میں امریکا کے تمام ناجائز منصوبوں کو ناکام بنا دیا گیا۔ یہ انسان، پیسوں، امریکا کی وسیع پروپیگنڈا مشینری، امریکی سفارتکاری کی طاقت اور دنیا کے بعض سیاستدانوں خاص طور پر کمزور ملکوں پر امریکیوں کی منہ زوری سے تیار کی گئي تمام سازشوں کے سامنے کھڑے ہو گیا۔ انھوں نے مغربی ایشیا کے خطے میں ان سازشوں کو نقش بر آب کر دیا۔

فلسطین کے سلسلے میں امریکیوں کا منصوبہ اور چال یہ تھی کہ مسئلۂ فلسطین کو طاق نسیاں کی زینت بنا دیا جائے، فلسطینیوں کو کمزوری کی حالت میں باقی رکھا جائے تاکہ وہ مقابلے کی ہمت نہ دکھا سکیں۔ اس مرد نے فلسطینیوں کو مضبوط بنا دیا۔ انھوں نے وہ کام کیا کہ غزہ پٹی جیسا بالشت بھر علاقہ، طمطراق کے دعوے کرنے والی صیہونی حکومت کے سامنے کھڑا ہو گیا اور اس نے وہ کام کیا اور وہ مزہ چکھایا کہ اڑتالیس گھنٹے میں ہی صیہونی کہنے لگے کہ جناب آئيے، جنگ بندی کرتے ہیں! یہ الحاج قاسم سلیمانی نے کیا ہے۔ انھوں نے فلسطینیوں کے ہاتھ مضبوط بنا دیے۔ ایسا کام کیا کہ وہ کھڑے ہو سکیں، استقامت دکھا سکیں۔ یہ وہ چیز ہے جو ہمارے فلسطینی بھائيوں نے بار بار مجھ سے کہی ہے۔ میں تو جانتا ہی تھا لیکن انھوں نے بھی آکر ہمارے سامنے اس کی گواہی دی۔ ان فلسطینی رہنماؤں نے اپنے متعدد دوروں میں، سبھی نے یہ بات کہی ہے۔ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ انھی رہنماؤں کے ساتھ، جو ان کے کام سے متعلق تھے، ہماری نشست ہوتی تھی، چاہے وہ رسمی نشست ہو ہو یا عام نشست ہو، مرحوم سلیمانی ایک گوشے میں اس طرح بیٹھ جاتے تھے کہ دکھائي نہیں دیتے تھے۔ ان نشستوں میں کبھی میں کچھ جاننا چاہتا یا ان کی توثیق چاہتا تو انھیں تلاش کرنا پڑتا تھا، وہ اپنے آپ کو آگے آگے نہیں رکھتے تھے، دکھاوا نہیں کرتے تھے۔

عراق میں، شام میں اور لبنان میں امریکا کی چالیں، اس شہید عزیز کی مدد سے اور ان کی سرگرمیوں سے ناکام ہوئیں۔ امریکی، عراق کو ایران کی سابق طاغوتی حکومت یعنی پہلوی حکومت یا آج کے سعودی عرب کی شکل میں پسند کرتے ہیں۔ تیل سے لبریز ایک جگہ پوری طرح ان کے کنٹرول میں ہو اور وہ جو چاہیں کریں یا اس شخص کے بقول دودھ دینے والی گائے ہو۔ یہ عراق کو اس طرح چاہتے ہیں۔ عراق کے مومن افراد، شجاع افراد، عراقی نوجوان اور عراق کی مرجعیت ان باتوں کے سامنے ڈٹ گئي اور الحاج سلیمانی رضوان اللہ تعالی علیہ نے اس پورے رضاکار محاذ کو ایک سرگرم مشیر کی طرح مدد بہم پہنچائي اور ایک مضبوط سہارے کی حیثیت سے وہاں پہنچے۔ اسی طرح کا معاملہ شام کے سلسلے میں بھی ہے، لبنان کے سلسلے میں بھی ہے۔ لبنان کے سلسلے میں امریکی چاہتے ہیں کہ لبنان کو، اس کی خودمختاری کے سب سے اہم عنصر یعنی استقامتی فورس اور حزب اللہ سے محروم کر دیں تاکہ نہتا لبنان، اسرائیل کے سامنے ہو اور وہ آ کر بیروت تک پر قبضہ کر لے، جیسا کہ وہ اس سے پہلے بیروت تک پہنچ گیا تھا۔ بحمد اللہ حزب اللہ روز بروز زیادہ طاقتور ہوتی گئي۔ آج لبنان کا ہاتھ بھی اور لبنان کی آنکھ بھی حزب اللہ ہے۔ اس صورتحال کے لیے ہمارے عزیز شہید کا کردار ایک نمایاں کردار ہے؛ تدبیر و شجاعت، شجاع مجاہد، ہمدرد بھائی۔

۶) ان کی شہادت نے ساری دنیا کو بتایا کہ انقلاب زندہ ہے

شہید سلیمانی کے بارے میں دوسرا باب اس عظیم شہادت کی برکتوں سے متعلق ہے۔ یہ عزیز شہید جب بھی ہمیں کوئی رپورٹ دیتے تھے، خواہ وہ تحریری رپورٹ ہو یا زبانی رپورٹ ہو، اپنی کارکردگی کے بارے میں جو رپورٹ دیتے تھے اس پر میں دل و زبان سے ان کی ہمیشہ تعریف کرتا تھا۔ لیکن آج وہ جن چیزوں کا سرچشمہ بن گئے ہیں، انھوں نے ملک بلکہ علاقے کے لئے جو حالات پیدا کر دئے ان کی وجہ سے میں ان کی تعظیم کرتا ہوں ۔ بہت بڑا کام انجام پایا، ایک قیامت برپا ہو گئی۔ ان کی روحانیت نے ان کی شہادت کو اس قدر نمایاں کر دیا، ملک کے اندر ان کو جس انداز سے الوداع کہا گيا، عراق کے اندر جو الوداع کہا گیا، کاظمین میں، بغداد میں، نجف میں، کربلا میں ان ٹکڑے ٹکڑے جنازوں کی جس انداز سے تشییع کی گئی اس پر میں دل کی گہرائیوں سے ان کی پاکیزہ روح کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

ان کی شہادت نے ساری دنیا پر ثابت کر دیا کہ ہمارے ملک میں انقلاب ہنوز زندہ ہے۔ کچھ لوگ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ایران میں انقلاب اب ختم ہو چکا ہے، مر چکا ہے، اس کا قصہ تمام ہو چکا ہے۔ البتہ کچھ لوگ یہ کوشش کر رہے ہیں کہ ایسا ہو جائے، لیکن ان کی شہادت نے ثابت کر دیا کہ انقلاب زندہ ہے۔ آپ نے دیکھا کہ تہران میں کیا فضا بنی؟ آپ نے دیگر شہروں میں دیکھا کہ کیا ماحول پیدا ہوا؟ البتہ مجھے بہت گہرا دکھ ہے اس تلخ سانحے کا جو کرمان میں پیش آیا اور جس کے نتیجے میں ہمارے کچھ عزیز ہم وطنوں کی جانیں گئیں، میں ان کے اہل خانہ کو تعزیت پیش کرتا ہوں اور میری دعا ہے کہ ان شاء اللہ ان جاں بحق ہونے والے افراد کی پاکیزہ ارواح بھی شہید سلیمانی کے ساتھ محشور ہوں۔ شہید سلیمانی نے غبار آلود آنکھوں کو اپنی شہادت سے صاف کر دیا۔ دشمن ملت ایران کی عظمت کے سامنے سر جھکانے پر مجبور ہوئے۔ ممکن ہے کہ وہ اسے ظاہر نہ کریں لیکن ان کے پاس کوئی اور چارہ نہیں ہے۔ جو دشمن یہ کوشش کر رہا ہے کہ اس عظیم المرتبت مجاہد کو، دہشت گردی سے بر سر پیکار اس عظیم کمانڈر کو ایک دہشت گرد کے طور پر متعارف کرائے، ظاہر ہے کہ انصاف سے بے بہرہ امریکیوں، جھوٹے امریکیوں، مہمل بیانی کرنے والے امریکیوں کی باتوں کی کوئی وقعت نہیں ہے، تاہم وہ اس انداز سے کام کر رہے تھے، ملت ایران نے ان کے منہ پر طمانچہ مارا۔

۷) شہید سلیمانی ملت ایران کے قومی ہیرو اور مسلم امہ کے چیمپیئن

یہ ہے کہ سلیمانی کی شہادت ایک تاریخی واقعہ ہے۔ یہ کوئی معمولی سانحہ نہیں ہے جسے تاریخ بھلا دے۔ یہ واقعہ تاریخ میں ایک درخشاں باب کے طور پر ثبت ہو گیا۔ شہید سلیمانی ملت ایران کے بھی قومی ہیرو بن گئے اور مسلم امہ کے بھی چیمپیئن قرار پائے۔ یہ بڑی بنیادی چیز ہے۔ ایرانی بھی اپنے اوپر ناز کریں کہ ان کے درمیان سے ایک شخص ایک دور افتادہ گاؤں سے اٹھتا ہے، محنت کرتا ہے، جدوجہد کرتا ہے، خود سازی کرتا ہے اور مسلم امہ کا چیمپیئن اور درخشاں ہستی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

۸) شہید سلیمانی شجاعت، استقامت، ذہانت، تیز دماغ، جذبہ ایثار و روحانیت کا مظہر

وہ ملت ایران کے قومی ہیرو ہیں کیونکہ ملت ایران نے اپنے ثقافتی ورثے کو، روحانی اور انقلابی سرمائے کو، اسی طرح اپنے اقدار کو ان کے وجود میں جلوہ گر دیکھا، مجسم ہوتے ہوئے دیکھا۔ ان کی زندگی میں ہی، جب ان کی آمد و رفت جاری تھی، بہت ہی سادگی سے رہتے تھے، اپنے لئے کسی طرح کے اہتمام کے قائل نہیں تھے، اس وقت بھی میں دیکھتا تھا کہ ان سڑکوں پر لوگوں نے ان کی تصویریں لگا رکھی ہیں اور ان پر ناز کرتے ہیں۔ جب شہید ہو گئے تو ان کی تعظیم کرنے والوں میں اور ذہن کے اند اور خارج از ذہن ان کو نذرانہ عقیدت پیش کرنے کے پروگراموں کا اہتمام کرنے والوں میں صرف انقلابی افراد نہیں تھے بلکہ ہر طبقے کے لوگوں نے یہاں تک کہ ان افراد نے بھی جن کے بارے میں یہ نہیں سوچا جاتا کہ وہ ایک انقلابی شخصیت سے اس قدر جذباتی لگاؤ رکھتے ہوں گے، اپنی عقیدت کا اظہار کیا۔ کیوں؟ اس لئے کہ وہ ایران کے ثقافتی اقدار کا آئینہ تھے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔

۹) ایران کا چہرہ ایرانی ثقافت کا مظہر

وہ ایک طرف تو شجاعت اور مزاحمت کے جذبے سے آراستہ تھے۔ شجاعت و مزاحمت ایرانی خصلتوں میں شامل ہے۔ عاجزی، پسپائی، بے عملی وغیرہ ہمارے قومی جذبات سے تضاد رکھتی ہے۔ جو لوگ قوم پرستی کے دعوے کرتے ہیں لیکن عملی طور پر عاجزی کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ در حقیقت تضاد کا شکار ہیں۔ وہ شجاعت کا مظہر تھے، استقامت کا مظہر تھے۔ اس کا مشاہدہ سب کرتے تھے اور سب دیکھتے تھے۔ دوسری طرف بڑی ذہانت اور تیز دماغ کے مالک تھے۔ بہت ذہین انسان تھے۔ اس سلسلے میں بہت سے نکات ہیں۔ یہ جو ایک خاص مسلک کی جانب مائل ایک تنظیم کے ابھرنے کا قضیہ ہے جو مزاحمتی محاذ کے خلاف سرگرم ہے، انھوں نے اس کی پیش بینی ایک عرصہ پہلے کر دی تھی اور مجھے بتایا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ میں دنیائے اسلام کے حالات میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں، انھوں نے کچھ ملکوں کا نام بھی لیا تھا، اس سے لگتا ہے کہ ایک تنظیم معرض وجود میں آ رہی ہے۔ کچھ عرصہ بعد داعش سامنے آ گئی۔ بہت ذہین اور تیز دماغ کے مالک تھے۔ جن امور کو سنبھالنے کے سلسلے میں دیگر ممالک سے ان کا رابطہ رہتا تھا اور جن میں وہ سرگرم تھے، ان میں بڑی سمجھداری اور دور اندیشی سے کام کرتے تھے۔ یہ میں بہت واضح طور پر محسوس کرتا تھا۔ گوناگوں امور کے سلسلے میں ہمارا آپس میں رابطہ رہتا تھا، بہت دور اندیش انسان تھے۔ یہ بھی ایرانیوں کی ایک خصوصیت ہے۔ ملت ایران کے ثقافتی سرمائے کا حصہ ہے۔

۱۰) ایثار اور انسان دوستی کے جذبے سے سرشار

ایک طرف ایثار اور انسان دوستی کے جذبے سے سرشار تھے۔ یعنی ان کی نظر میں یہ قوم اور وہ قوم کی بحث کا کوئی مطلب نہیں تھا۔ وہ انسان دوست تھے۔ واقعی ان میں سب کے لئے جذبہ ایثار تھا۔ ایک طرف روحانیت، اخلاص اور آخرت سے لگاؤ رکھنے والے انسان تھے۔ واقعی روحانیت کی وادی کے انسان تھے۔ واقعی اہل معنویت اور اہل اخلاص تھے۔ دکھاوے والے انسان نہیں تھے۔ یہ اخلاقی اوصاف ہیں، یہ بڑے اہم اوصاف ہیں۔ عوام نے یہ چیزیں دیکھیں کہ یہ ساری خصوصیات اس شخص میں نمایاں ہیں، فلاں ملک اور فلاں ملک کے پہاڑوں پر، بیابانوں میں گوناگوں دشمنوں کے سامنے پہنچ گئے اور ان ایرانی ثقافتی اقدار کو مجسم شکل میں پیش کیا، منعکس کیا اور دکھایا۔ لہذا ملت ایران کے ہیرو بن گئے۔

۱۱) شہید سلیمانی بیداری اور مزاحمتی تحریک کا محور

دوسری طرف ہم نے عرض کیا کہ وہ مسلم امہ کے بھی چیمپیئن ہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ شہید سلیمانی نے اپنی سرگرمیوں سے اور آخر میں اپنی شہادت کے ذریعے، ان کی شہادت بھی اسی مفہوم کی تکمیل کرنے والی ثابت ہوئی، دنیائے اسلام کی نئی بیداری اور مزاحتمی قوت کو مجتمع و منظم کرنے کا کوڈ ورڈ بن گئے۔ آج دنیائے اسلام میں جہاں کہیں بھی استکبار کی زیادتیوں کے مقابلے میں مزاحمت کے آثار ہیں وہاں اس عمل کا مظہر اور کوڈ ورڈ شہید سلیمانی ہیں۔ مختلف ملکوں میں ان کی تعظیم کی جاتی ہے۔ ان کی تصویریں چسپاں کی جاتی ہیں۔ ان کے نام کی تشہیر کی جاتی ہے۔ ان کے لئے نشستیں ہوتی ہیں۔ انہوں نے در حقیقت قوموں کو مزاحمت کی نئی فکر اور جدوجہد کا نیا آئیڈیل دیا، قوموں تک پہنچایا اور ان کے اندر عام کر دیا۔ یہ بڑا اہم اور حساس کردار ہے۔ اسی لئے وہ حقیقی معنی میں ایک نمایاں ہستی اور اسلامی چیمپیئن ہیں۔

۱۲) شہید سلیمانی استکبار پر فتح کے ہیرو

شہید سلیمانی نے اپنی زندگی میں بھی استکبار کو شکست دی اور اپنی شہادت کے ذریعے بھی اسے شکست سے دوچار کیا۔ یہ صرف دعوی نہیں ہے۔ یہ ثابت شدہ حقائق ہیں۔ اپنی زندگی میں شکست دی اس کا ثبوت یہ ہے کہ امریکہ کے صدر نے کہا کہ ہم نے سات ٹریلین ڈالر خرچ کر دئے مگر عراق میں ہمیں کچھ بھی حاصل نہیں ہو سکا۔ یہاں تک کہ وہ عراق کی ایک چھاونی کا دورہ کرنے کے لئے رات کی تاریکی کا سہارا لینے پر مجبور ہوئے۔ یہ بات ساری دنیا نے مانی کہ امریکہ عراق میں اور شام میں، خاص طور پر عراق میں اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو پایا۔ کیوں؟ اس قضیئے میں کون سرگرم عمل تھا؟ اس کارنامے کی چیمپیئن سلیمانی تھے۔ بنابریں انھوں نے اپنی زندگی میں انھیں شکست دی۔

اپنی شہادت کے بعد بھی دشمنوں کو شکست دی۔ ایران میں جو جلوس جنازہ نکلا وہ واقعی عجیب اور نا قابل فراموش تھا۔ اسی طرح عراق میں دسیوں لاکھ لوگوں کی شرکت سے جو تشییع جنازہ ہوئی، نجف میں، بغداد میں دسیوں لاکھ لوگوں کی شرکت، ان کا اور شہید ابو مہدی مہندس کا جلوس جنازہ ایک ساتھ نکلا۔ در حقیقت یہ جلوس جنازہ اور اس کے بعد انھیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے منعقد ہونے والے پروگرام دیکھ کر استکبار کے سافٹ وار کے ماہرین ششدر رہے گئے۔ جو لوگ استکبار کی فکری جنگ کے اہم عناصر ہیں اور در حقیقت وہی سرگرم عمل ہیں اور امریکہ و استکبار کی سافٹ وار کے کمانڈر ہیں وہ سب مبہوت رہ گئے کہ یہ کیا حالات پیدا ہو گئے؟! یہ کون تھا؟ یہ کیا تھا؟ یہ کیسی عظیم تحریک ہے جس نے ان کو شکست دے دی۔

متعلقہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *