اسلام اور عفت و پاکدامنی کی اہمیت از شہید مطہری
عفت و پاکدامنی کا کلچر انسان کی فطری صلاحیتوں کو مثبت اور تعمیری ڈائریکشن فراہم کرتا ہے جس کے نتیجے میں انسان آزادی اور استقلال کی قدر و قیمت سے حقیقی طور پر آشنا ہوتا ہے اور دشمن کے ہاتھوں کھلونہ نہیں بنتا۔ شہید مطہری، پاکدامنی کی افادیت اور فحشاء کے نقصانات کو یوں بیان کرتے ہیں: “بعض لوگ عملی طور پر فحشاء کی ترویج میں مصروف ہیں۔ وہ یا تو دولت کی خاطر یا دوسرے مقاصد کے حصول کے لئے اس کی ترویج کر رہے ہیں۔ البتہ دورِ حاضر میں یہ مقاصد عموماً سامراجی ہوتے ہیں۔
فحشاء کو عام کرنے کا سامراجی ہدف
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ اشخاص فحشاء کو عام کیوں کرنا چاہتے ہیں؟ جواب یہ ہے کہ
لوگوں کی مردانگی کو فحشاء کا رواج جتنا زیادہ متزلزل کرتا ہے دوسری کوئی چیز نہیں کر سکتی۔ اگر آپ کسی ملک کے نوجوانوں کی توجہ اہم مسائل (ایسے اہم مسائل جو سامراج کے مفاد کو خطرے میں ڈالتے ہیں) سے ہٹا کر انہیں عیش و نوش جیسے امور میں مشغول کرنا چاہیں تاکہ وہ کبھی بھی ان اہم مسائل کے متعلق غور و فکر نہ کریں اور نہ ہی ان کی جانب متوجہ ہوں، تو اس کا حربہ یہ ہے کہ جس حد تک ممکن ہو شراب فروشی میں اضافہ کیجئے، میخانوں کی تعداد بڑھائیے، بازاری عورتوں میں اضافہ کیجئے، لڑکے لڑکیوں کی ملاقاتوں کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کیجئے۔
استکبار اور فحشاء کا پھیلاو
لوگوں کی مردانگی کو فحشاء کا رواج جتنا زیادہ متزلزل کرتا ہے دوسری کوئی چیز نہیں کر سکتی۔ امریکی حکمران جو پوری دنیا کو برائیوں میں مبتلا کرنے کا پروگرام بنائے بیٹھے ہیں، ان کا منصوبہ یہی ہے کہ فحشاء پھیلائیں تاکہ عوام کی جانب سے انہیں کسی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
جس قدر ہیروئن اور تریاک نوجوان طبقے کی جسمانی و روحانی قوت کو تباہ کرتے ہیں، لوگوں سے قوت ارادی چھین لیتے ہیں، ان کے ارادے کو متزلزل کر دیتے ہیں، عزتِ نفس اور شرافت کے احساس اور مردانگی کو تباہ کرتے ہیں، اسی قدر فحشاء کا کردار بھی ہے۔
اسلام کا فلسفہ پاکدامنی
اسلام پاکدامنی پر اتنا زیادہ زور کیوں دیتا ہے؟ پاکدامنی کا ایک فلسفہ یہ ہے کہ انسانی قوتیں جسموں میں جمع ہوں۔ اسلام یہ نہیں کہتا کہ جنسی عمل بالکل انجام نہ دیا جائے۔ وہ بیوی کے ساتھ جنسی عمل انجام دینے کی اجازت دیتا ہے۔ وہ کلیسا اور کتھولک عیسائیوں کی رائے سے متفق نہیں ہے۔ البتہ دائرۂ ازدواج سے باہر رہ کر جنسی عمل انجام دینے کی اجازت ہرگز نہیں دیتا۔ اور یہ تدبیر اسلام نے زن و مرد کی شرافت، انسیت، مروت اور مردانگی کو محفوظ کرنے کے لئے اختیار کی ہے۔قرآنِ کریم عفت و پاکدامنی اور افراد کے جنسی تعلقات کی پاکیزگی پر بہت زور دیتا ہے۔ اس کی اساس ان مصلحتوں اور حکمتوں پر استوار ہے جن کی جانب میں اشارہ کر چکا ہوں۔
صحیح خطوط پر تربیت
اسلام نے زنا و بدکاری کے سد باب کے لئے متعدد طریقے اپنائے ہیں جن میں وعظ و نصیحت، امر بالمعروف، نہی عن المنکر اور تربیت شامل ہیں۔ اصل مسئلہ یہی ہے کہ لوگوں کی تربیت صحیح خطوط پر ہو۔
پاکدامنی کو رواج دینے کے دو طریقے
اسلام نے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے دو طریقے اختیار کئے ہیں۔ ایک جانب تو اس نے ایسی تدابیر اختیار کی ہیں جن کی مدد سے جنسی غریزے پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور دوسری جانب وہ بدکاری کا ارتکاب کرنے والوں کو سزا دیتا ہے۔لیکن جیسا کہ ہم جانتے ہیں گناہ کہ ختم کرنے کے محض سزا ہی کافی نہیں ہے۔ سخت ترین سزائیں بھی جرم اور گناہ کو ختم نہیں کر سکتیں۔ ظلم اور جرم چاہے بے عفتی ہو، چاہے چوری و قتل ہو، یا بے احتیاطی ہو، مثلاً بے احتیاطی سے گاڑی چلانا۔ یہ بات بالکل درست نہیں کہ ہم کسی جرم یا ظلم کے خاتمہ کے لئے فقط سزا پر زور دیں۔ بلکہ ہمیں وقوعِ جرم کے اسباب کو دیکھنا چاہئے! ان اسباب کا خاتمہ کرنا چاہئے اور پھر جرائم پیشہ عناصر کو سزا دی جانی چاہئے۔
اسلام اور عفت و پاکدامنی
اسلام نے ایک جانب تو اس نے ایسی تدابیر اختیار کی ہیں جن کی مدد سے جنسی غریزے پر کنٹرول کیا جاسکتا ہے اور دوسری جانب وہ بدکاری کا ارتکاب کرنے والوں کو سزا دیتا ہے۔ قرآن کریم عفت و پاکدامنی پر بہت زور دیتا ہے، یہ تدبیر اسلام نے زن و مرد کی شرافت، انسیت، مروت اور مردانگی کو محفوظ کرنے کیلئے اختیار کی ہے۔
سرکشی کی ایک خاص حالت میں جرم کا ارتکاب
(عام طور پر وقوعِ جرم کے اسباب نہیں پائے جاتے فقط سرکشی کی ایک خاص حالت میں جرم کا ارتکاب کیا جاتا ہے) اس کی وضاحت کی خاطر ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ تیز رفتاری اور اوور ٹیکنگ کا مسئلہ اہم ترین مسائل میں سے ہے۔ اس بات کی ہمیشہ تاکید کی جاتی ہے کہ ڈرائیور حضرات شہر کے اندر فلاں رفتار (مثلاً چالیس کلومیٹر فی گھنٹہ) سے تیز گاڑی نہ چلائیں۔ اگر کوئی خلاف ورزی کرتا ہوا پکڑا گیا تو اسے جرمانہ کیا جائے گا۔ جرمانہ جس قدر بھی زیادہ ہو اگر اس جرم کے وقوع کے اسباب کی چھان بین نہ کی جائے تو محض سزا کافی نہیں ہو گی۔ خصوصاً ڈرائیونگ میں تو سزا ویسے ہی موجود ہے یعنی ’’مجازا تُھا مَعَھا‘‘ ہے کیونکہ جو شخص گاڑی تیز رفتاری سے چلاتا ہو اور دیوانوں کے مانند اندرونِ شہر اور بیرونِ شہر گاڑی تیز رفتار سے دوڑاتا پھرتا ہو تو سب سے زیادہ خطرہ اسی کو لاحق ہوتا ہے۔
اس کی گاڑی بھی خطرے میں ہوتی ہے اور جان بھی۔ لیکن اس کے باوجود نہ تو جان اور مال کا خطرہ اسے تیز رفتاری سے باز رکھتا ہے اور نہ ہی سزا۔ کیوں؟ اس لئے کہ بعض عوامل اسے ایسا کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ مثلاً آپ کسی ٹیکسی ڈرائیور کو ٹیکسی احتیاط سے چلانے کی نصیحت کریں یا تیز رفتار سے گاڑی چلانے پر اس کے لئے جرمانہ تجویز کریں جبکہ وہ اس قسم کے حالات کا شکار ہو کہ وہ خود ٹیکسی کا مالک نہ ہو بلکہ اس کی حیثیت فقط ایک ڈرائیور کی ہو۔ صبح سے ہی ٹیکسی چلانا شروع کر دیتا ہو۔ اب اگر وہ دن بھر کی محنت و مشقت کے بعد ۱۲۰ تومان نہ کمائے تو وہ اپنے بیوی بچوں کا پیٹ نہیں پال سکتا کیونکہ ان ۱۲۰ تومانوں میں سے ۶۰ تومان تو اسے مالک کو ادا کرنا ہیں۔ اگر وہ ۶۰ تومان مالک کو ادا نہیں کرے گا تو وہ دوسرے دن اس کی چھٹی کرا دے گا۔ پھر ۳۰ تومان ٹیکسی کے پٹرول وغیرہ کا خرچہ نکالے گا۔ یوں دن بھر کی مشقت کے بعد اس کے لئے فقط ۳۰ تومان باقی بچتے ہیں۔
ان حالات میں اگر اس کو ہزار نصیحت کریں اور کہیں کہ تیز رفتاری سے تمہاری جان خطرے میں پڑ سکتی ہے یا تمہیں اس قدر جرمانہ کیا جائے گا اور تمہیں جیل بھیج دیا جائے گا، جبکہ دوسری طرف ۳۰ تومان گھر لے کر جانا بھی اس کی مجبوری ہے کیونکہ اگر ۳۰ تومان بھی گھر لے کر نہ جائے تو اپنی بیوی بچوں کو کیا منہ دکھائے گا۔ ان حالات میں وہ کیا کرسکتا ہے؟ وہ ٹیکسی اسٹارٹ کرتا ہے اور پھر اسے تیز رفتاری سے چلاتا ہے۔ وہ بہرصورت ۱۲۰ تومان کمانے پر مجبور ہے۔ ایک مجبوری اس پر اپنا حکم چلاتی ہے، اس لئے نہ وہ سزا کی پرواہ کرتا ہے اور نہ ہی کوئی نصیحت سودمند ثابت ہوتی ہے۔
پس اگر ہم اس کو تیز رفتاری سے باز رکھنا چاہیں تو سزا سخت کرنے سے ہم اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکتے، بلکہ ہمیں تیز رفتاری کے اسباب کو مد نظر رکھ کر آگے بڑھنا ہوگا اور اس کے اسباب کو پیش نظر رکھ کر ہی مشکل حل ہو گی۔ مثلاً اگر ہم اس کو ایسی سہولیات پہنچا سکیں کہ وہ دن میں سات گھنٹے آرام سے ٹیکسی چلا کر بیوی بچوں کا پیٹ پال سکے تو اس کا دماغ خراب نہیں کہ اپنی جان اور ٹیکسی کو خطرے میں ڈالے یا اپنے آپ کو جیل کے حوالہ کرے۔ چوری، شراب خوری، زنا، قتل اور ان جیسے دوسرے جرائم کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔