اسلام کا تصوّرِ فطرت از شہید مطہری
انسانی فطرت کی ماہیت اور نوعیت کے بارے میں فلسفی مکاتب باہم اختلاف رکھتے ہیں، اس سلسلے میں مسلم سماج کے متجسس اذہان میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ فطرت کے بارے میں اسلام کا زاویہ نگاہ اور تصور کیا ہے؟! اسلامی مفکر شہید مرتضی مطہری اس سلسلے میں فرماتے ہیں:
کانٹ اور ڈیکارٹ کا تصورِ فطرت
اسلام کا تصور فطرت وہ نہیں جو ڈیکارٹ اور کانٹ وغیرہ کے نزدیک ہے کیوں کہ ان کے نزدیک انسان میں پیدائش کے وقت سے کچھ ادراکات رجحانات اور تماثلات بالفعل (پیدائش کے ساتھ) یا عملی طور پر موجود ہوتے ہیں اور فلاسفہ کی اصطلاح میں انسان بالفعل(پیدائش کے ساتھ) عقل اور ارادے کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔
مارکسزم اور اگزیسٹینشلزم کا تصورِ فطرت
اسی طرح سے انسانی فطرت کے بارے میں ہم فطرت کے منکرین جیسے مارکسزم اور اگزیسٹینشلزم (فلسفہ وجودیت) کے نظریے کو بھی قبول نہیں کرتے جو یہ کہتے ہیں کہ انسان ہر چیز کو قبول کرنے کی صلاحیت لے کر پیدا ہوتا ہے اور اسے جو بھی کردار دیا جائے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا بالکل ایک سفید کاغذ کی طرح جس پر جو کچھ لکھا جائے مساوی ہے۔
فطرت سے متعلق اسلامی زاویہ نگاہ
جب کہ ہمارے نزدیک انسان پیدائش کے وقت بالقوہ اور استعدادی صلاحیت کے تحت کچھ چیزوں کے لئے میلانات اور تحرکات لے کر پیدا ہوتا ہے اور ایک باطنی قوت خارجی عوامل کی مدد سے ان چیزوں کی طرف اس کی رہنمائی کرتی ہے۔ اگر اس کی بالقوہ صلاحیت تک متشکل ہو جائے تو وہ ایسی عملی شکل یا فعلیت تک پہنچ جاتا ہے جو اس کے لائق ہے اور انسانیت کہلاتی ہے اور اگر خارجی عوامل کے جبر سے اس پر مذکورہ فعلیت کے علاوہ کوئی اور فعلیت مسلط کر دی جائے تو وہ ایک مسخ شدہ ’’ہستی‘‘ میں بدل جاتا ہے۔
اسی بناء پر انسان کے مسخ ہونے کا مسئلہ جس کی بات مارکسزم اور اگزیسٹینشلزم (فلسفہ وجودیت) کے پیروکار بھی کرتے ہیں صرف مکتب اسلام کے نظریے کے ذریعے ہی قابل حل ہے۔
اس مکتب کے نکتہ نگاہ سے پیدائش کے وقت انسان کے کمالات اور اقدار سے نسبت ناشپاتی کے ایک ننھے سے پودے اور ایک تناور درخت کی باہمی نسبت کی سی ہے کیوں کہ ایک باطنی قوت خارجی عوامل کی مدد سے اس ننھے پودے کو درخت میں تبدیل کر دیتی ہے۔ یہ نسبت لکڑی کے تختے اور کرسی کی سی نہیں جنہیں صرف بیرونی عوامل مختلف صورتوں میں تبدیل کر دیتے ہیں۔
کتاب: انسان قرآن کی نظرمیں، شہید مرتضی مطہری سے اقتباس