اسلام میں عورت کی اجتماعی زندگی رہبر انقلاب کی نگاہ میں
عورت اور اجتماعی فعالیت
اسلامی زاویہ نگاہ سے عورت کو اجتماعی سرگرمیوں میں حصّہ لینے کا حق حاصل ہے۔ یعنی عورت انفرادی اور اجتماعی میدان میں فعالیت انجام دینے کا حق رکھتی ہے، عورت کے اجتماعی کردار کے حوالے سے رہبر معظم فرماتے ہیں: اسلام کی نگاہ میں انسانی معاشرے اور زندگی کے تمام شعبوں سے مربوط فعالیت میں مرد وعورت دونوں کو شرکت کی اجازت ہے اور دونوں اس امر میں مشترک ہیں۔ہاں البتہ بعض ایسے کام ہیں جو خواتین کے کرنے کے نہییں ہیں چونکہ اُس کی جسمانی ساخت اور اُس کی طبیعت و مزاج اورفطرت سے مطابقت نہیں رکھتے۔
تقسیم کار کا فلسفہ
بعض کام ایسے ہیں جنہیں انجام دینا مرد کے بس کی بات نہیں ہے چونکہ اُس کی جسمانی، اخلاقی اور روحی صفات و عادات سے میل نہیں کھاتے۔ اس موضوع کا اِس سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ عورت اجتماعی فعالیت کے میدان میں سرگرم عمل ہوسکتی ہے یانہیں۔ کاموں کی تقسیم در حقیقت امکانات ،شوق اور اُس کام کے تقاضوں اور اہداف کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی ہے۔
عورت اور زندگی کے تمام شعبوں میں خدمت
اگر عورت شوق رکھتی ہو تو وہ معاشرتی زندگی سے مربوط مختلف قسم کی اجتماعی فعالیت کو انجام دے سکتی ہے۔ خواہ وہ فعالیت اقتصادی ہو یا سیاسی،یا خاص معنوں میں اجتماعی فعالیت ہو یا تحصیل علم اور تحقیق وریسرچ ، ان تمام شعبہ ہائے زندگی میں مختلف قسم کی فعالیت و جدوجہد کرنے میں مرد و عورت میں اسلام کی نگاہ میں کوئی فرق نہیں ہے۔
اسلام مخالف نظریات
اگر کوئی یہ کہے کہ مرد کو تحصیل علم کا حق ہے ، عورت کو نہیں، مرد تدرییس کرسکتاہے، عورت نہیں؛ مرد اقتصادی و معاشی میدان میں آگے بڑھ سکتا ہے ، عورت کو اقتصاد ومعیشت سے کیا سروکار اور مرد سیاسی فعالیت انجام دے سکتا ہے ، عورت کا سیاست سے کیا کام؟تو نہ صرف یہ کہ اِس کہنے والے نے اسلام کی منطق کو بیان نہیں کییا بلکہ برخلاف اسلام، سخن اُس کے لبوں پر آئی ہے۔
اجتماعی فعالیت کے قوانین
البتہ اس فعالیت کی انجام دہی کیلئے کچھ اصول و قوانین کو معین کیا گیاہے کہ یہ اصول و قوانین عورت اور اُسے فعالیت کی اجازت دینے سے مربوط نہیں ہیں بلکہ مرد وعورت کے باہمی اختلاط اور بے مہار میل و جول اور رابطے سے مربوط ہے کہ جن کو اسلام بہت زیادہ خاص مسائل کی حیثیت سے دیکھتا ہے۔ اسلام یہ کہتا ہے کہ مرد و عورت کو چاہیے کہ وہ معاشرتی زندگی کے تمام پہلووں اورتمام مقامات ، شاہراہوں، اداروں ، کارخانوں وغیرہ میں اپنے درمیان ایک حد وفاصلے کے قائل ہوں اور اِسی لیے مرد و عورت کے درمیان حجاب اور اسی سے مربوط حدود و قوانین کو وضع کیا گیا ہے۔
مرد و عورت کا باہمی میل جول کی حدود
مرد و عورت کا باہمی اختلاط اورمیل جول،مردوں کے آپس میں یا خواتین کے آپس میں میل جو ل اوررابطے جیسا نہیں ہے لہٰذا ان تمام امور کا خیال رکھنا چاہیے، یعنی مرد حضرات بھی ان قوانین اورحدود کا خیال رکھین اور خواتین بھی حجاب و حدود کی پابندی کریں۔
اگر مرد و عورت کے باہمی رابطے اور میل جول کی روش میں اسلامی احکامات و حساسیت کو مدنظر رکھا جائے تو اجتماعی فعالیت کے میدان کے وہ تمام کام جو مرد انجام دے سکتے ہیں خواتین بھی اگر جسمانی قدرت اور شوق کی مالک ہوں اورفرصت ووقت رکھتی ہوں ، وہ کام انجام دے سکتی ہیں۔
حجاب کی رعایت
اسلام نے بے مہار میل جول اور روابط و تعلقات کا سدباب کرنے اور اخلاقی حدود کی حفاظت کیلئے خواتین کیلئے حجاب کو معین کیاہے۔ خود یہ حجاب خواتین کو ایک قسم کی حفاظت اور امن و سکون عطا کرتا ہے۔ ایک باحجاب مسلمان عورت نہ صرف یہ کہ امن و سکون کا احساس کرتی ہے بلکہ مسلمان مرد بھی (آنکھوں اور شہوت کے گناہوں وغیرہ کی دوری کی وجہ سے ) راحت و آرام پاتے ہیں۔جہاں بھی حجاب کو خواتین سے لے کر انہیں عریانی و فحاشی (اور بے پردگی) سے نزدیک کیا جائے تو سب سے پہلے خود خواتین اور اِس کے بعد مردوں اور نوجوانوں سے (روحانی اور جسمانی) آرام و سکون چھین لیا جائے گا۔
حجاب کی اہمیت
اسلام یہ کہتا ہے کہ مرد و عورت کو چاہیے کہ وہ معاشرتی زندگی کے تمام پہلووں اورتمام مقامات ، شاہراہوں، اداروں ، کارخانوں وغیرہ میں اپنے درمیان ایک حد وفاصلے کے قائل ہوں اور اِسی لیے مرد و عوورت کے درمیان حجاب اور اسی سے مربوط حدود و قوانین کو وضع کیا گیا ہے۔
اسلام نے معاشرے کے ماحول کو پاکیزہ رکھنے اور (روحانی و جسمانی) آرام وسکون کی حفاظت کیلئے حجاب کو واجب کیا ہے تاکہ خواتین معاشرے میں باآسانی اپنے امور کو انجام دے سکیں اور مرد اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے عہدہ برآں ہوسکیں۔ یہ حجاب ، اسلام کے شاندار احکامات میں سے ایک حکم ہے اور اس کا ایک فائدہ یہی ہے کہ جسے آپ کی خدمت میں عرض کیا۔
عفت وپاکدامنی کی حفاظت
ایک مسلمان عورت کوایک مسلمان مرد کی طرح (آزادانہ فضا میں )فعالیت کا حق حاصل ہے مگر زمانے کے تقاضوں کے ساتھ، یعنی وہ معاشرتی زندگی میں جس خلا اور جس ذمے داری کا اپنے دوش پر احساس کریں، اُنہیں انجام دیں۔ مثلاً ایک لڑکی چاہتی ہے کہ طب کے شعبے میں قدم رکھے اور ڈاکٹر بنے ، یا اقتصاد کے میدان میں اپنی ماہرانہ اورپیشہ وارانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لائے یا دیگر علمی مضامین میں فعالیت انجام دے ،یا جامعہ میں تدریس کرے، یا سیاسی میدان میں مردوں کا بوجھ ہلکا کرے یاصاحب قلم یا ایڈیٹر بن کر ادب و معاشرے کی خدمت کرے تو اُس کیلئے تمام راستے کھلے ہیں۔
مگر ایک شرط کے ساتھ! اور وہ یہ کہ وہ اپنی عفت و پاکدامنی کی حفاظت کرے اور مردو عورت کے درمیان بے مہار میل جول اور غیر شرعی تعلقات سے کنارہ کشی اختیار کرے تو ایسے اسلامی معاشرے میں مرد وعورت دونوں کیلئے راہ کھلی ہے۔ ہمارے اس مطلب پر گواہ،وہ تمام اسلامی آثار ہیں کہ جو اس سلسلے میں ہمارے پاس موجود ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اسلامی احکام و فرائض ہیں کہ جو مرد وعورت کو یکساں طور پر اجتماعی ذمے داریاں عطاکرتے ہیں۔
اسلام میں خواتین کا معاشی استقلال
مسلمان بیٹیو! اور مومنہ خواتین ! یہ بھی آپ کی خدمت میں عرض کروں کہ اہل یورپ جو اِس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ یورپی معاشرے میں عورت آزاد ہے تو اس کا کیا مطلب ہے؟
یہی یورپی ہی تھے کہ جو نصف صدی قبل عورت کو اِس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ وہ اپنے ذاتی مال و ثروت میں اپنی مرضی کے مطابق تصرّف کرے! یعنی ایک یورپی یا امریکی عورت ، پچاس ساٹھ سال قبل اگر لاکھوں روپے کی مالک بھی ہوتی تو اُسے یہ حق نہیں تھا کہ وہ اپنی خوشی اور ارادے سے اُسے خرچ کرسکے۔وہ ہر صورت میں اپنے مال و دولت کو اپنے شوہر ،باپ یا بھائی کے اختیار میں دے دیتی اور وہ لوگ اپنے میل اور ارادے سے اِس عورت کی دولت کو خود اُس کیلئے یا اپنے لیے خرچ کرتے تھے! لیکن اسلام میں ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اسلام مییں عورت اپنی ثروت و دولت کی خود مالک ہے ، خواہ اُس کا شوہر راضی ہو یا نہ ہو، اِس میں اس کے با پ کی مرضی شامل ہو یا نہ ہو، کوئی فرق نہیں ہے۔ اسلامی قوانین کی رُو سے عورت اپنے مال و دولت اور جمع پونچی کو استعمال میں لائے اور اِس میں وہ کسی کے اذن و ارادے کی محتاج نہیں ہے۔ خواتین کے اقتصادی استقلال و آزادی کی حمایت کرنے میں دنیا، اسلام سے تیرہ صدیاں پیچھے ہے۔ اسلام نے اس امر کو تیرہ صدیی قبل بیان کیا ہے لیکن یورپ میں ابھی چالیس پچاس سال اور بعض دیگر ممالک میں اس مدت سے بھی کم عرصہ ہوا ہے کہ انہوں نے اپنے معاشرے کی عورت کو اِس بات کی اجازت دی ہے کہ وہ اپنے ذاتی مال و ثروت میں تصرف کرے! اسلام اس جہت سے بھی بہت آگے ہے۔
اقتباس از کتاب عورت گوہر ہستی، تالیف سید علی خامنہ ای
Previous
Next