جنگ غزہ و لبنان میں فتح و نصرت کیلئے رہبر معظم کی خصوصی تاکیدات!
امام رضاؑ کی ولی عہدی پر تحقیقی نگاہ از شہید مطہری
وہ حرام کام جو بعض حالات میں واجب ہوتا ہے!
وہی آئمہ اطہارؑ کہ جو ظالم خلفاء کا ساتھ دینے سے شدت کے ساتھ منع فرماتے ہیں اور ممنوع قرار دیتے ہیں۔ عین اسی وقت پر اگر کسی کا ساتھ دینا اسلامی معاشرے کے فائدے میں ہو یعنی یہ کہ وہ شخص(جو ظالم خلفاء کا ساتھ دے رہا ہو)جہاں جائے وہاں ہونے والے شرّ اور مظالم کو کم کرے، یعنی اپنے ہدف اور مسلک کی سمت میں سرگرمیاں انجام دے، ویسا نہ کرے جو صفوان جّمال نے کیا کہ جس نے اپنے اونٹوں کو کرایے پہ دے دیا۔ غرض یہ کہ اس نے فقط ظالم کی تائید کی۔ اس کے برعکس ایک شخص جو ظالم کے مورچے میں جاتا ہے اور اس حکومت میں ایک عہدہ لیتا ہے اس لئے کہ اس سے بہترین فوائد حاصل کرے، اس چیز کی ہمارا مذہب اجازت دیتا ہے، سیرت آئمہ بھی اس بات کی اجزت دیتی ہے، قرآن بھی اجازت دیتا ہے۔
امام رضاؑ کا تنقید کرنے والوں سے سوال!
امام رضاؑ پر کچھہ لوگوں نے اعتراض کیا کہ آخر کیوں آپکا نام، چاہے تھوڑا ہی سہی ان(ظالم عباسی خلفاء)کے ساتھہ لیا جاتا ہے؟ روایت ہے کہ آپ نے ان کےجواب میں سوال کیا کہ پیغمبروں کا مقام زیادہ ہے یا ان کے اوصیاء کا؟ جواب دیا کہ پیغمبروں کا۔ آپؑ نے پوچھا کہ ایک مشرک حاکم زیادہ برا ہے یا ایک مسلمان جو فاسق ہو؟ لوگوں نے کہا مشرک حاکم۔ آپؑ نے پوچھا کہ کچھہ شرائط کے ساتھ تعاون کرنے والا بہتر ہے یا وہ جو مجبور ہوکر تعاون کرے؟ لوگوں نے کہا کہ جو شرائط کے ساتھ تعاون کرے۔
امام رضاؑ اور جناب یوسفؑ کے قصّوں میں یکسانیت!
امام رضاؑ نے مامون رشید کی ولی عہدی پر اپنے اوپر تنقید کرنے والوں سے کہا کہ حضرت یوسف صدیقؑ ، اللہ کے پیغمبر تھے، عزیز مصر کافر و مشرک تھا اور جناب یوسفؑ نے خود یہ تجویز دی اور تقاضا کیا کہ “اجعلني على خزائن الارض إني حفيظ عليم” کیونکہ ایک کافر کی حکومت میں ایک عہدے کو استعمال کرکے اس کا بہترین استعمال کرنا چاہتے تھے۔ پس صرف میرے یہاں(مامون کی حکومت میں)آنے سے مجھہ پہ اعتراض کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ وہ(عزیز مصر)کافر تھا، مامون ایک فاسق مسلمان ہے، حضرت یوسفؑ پیغمبر تھے، میں وصی پیغمبر ہوں۔ انہوں(جناب یوسف)نے خود عہدے کا تقاضا کیا جبکہ مجھے اس کام کے لئے مجبور کیا گیا۔ لہذا صرف اس بات کو لے کر اعتراض نہیں کیا جاسکتا!
عہد معارف ، شہید مطہری