تفسیرِ بسم الله از امام خمینی
ہر بسم اللہ کا الگ معنا!
ممکن ہے کہ ایک سورہ کی بسم اللہ کا معنا دوسری سورہ کی بسم اللہ سے مختلف ہو۔ہر وہ سورت جو بسم اللہ سے شروع ہوتی ہے اور اس مخصوص سورہ میں پائے جانے والے پیغام سے مناسبت رکھتی ہے یہ اس بسم اللہ سے مختلف ہے جو کسی دوسری سورہ میں پائی جاتی ہے۔
بسم اللہ اور اسمائے الٰہی!
اب دستور کے مطابق بسم اللہ کا تعلق سورہ حمد میں “حمد” سے ہے۔یہ دیکھنا پڑے گا کہ حمد،اللہ کے کس نام کا ذکر کررہی ہے۔اللہ کے ناموں میں سے وہ کونسا نام ہے جو ذات وحدہ لاشریک کا مظہر ہے کہ جس کی حمد کی جارہی ہے۔مثلا سورہ اخلاص میں اسمای اللہ میں سے کونسا نام ہے جو”اللہ احد” اور “ھو اللہ” سے مناسبت رکھتا ہے۔فقہ میں بھی یہ مسئلہ ہے کہ اگر کسی سورہ کے لئے ایک دفعہ بسم اللہ کہنے کے بعد دوسری سورہ شروع کرنا چاہیں تو ایک بسم اللہ کافی نہیں ہے،دوبارہ بسم اللہ پڑھنی ضروری ہے۔
بسم اللہ صرف برکت کے لئے نہیں!
یہ بھی اس نظریے کے مطابق ہے کہ یہ بسم اللہ دوسری بسم اللہ سے مختلف ہے۔اگر ہر جگہ بسم اللہ کا ایک ہی مطلب ہو تو اس سورہ کی بسم اللہ اوراُس سورہ کی بسم اللہ میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔جیسا کہ بعض افراد کر مطابق بسم اللہ کسی سورہ کا حصہ نہیں ہے سوائے سورہ حمد کے اور صرف خیر و برکت کے لئے پڑھیں جاتی ہے،یہ نظریہ صحیح نہیں ہے۔
حمد،خدا کے اسم سے واقع ہوتی ہے!
اب اس صورت میں کہ سورہ حمد میں بسم اللہ،حمد کے معنا کے متعلق ہے،ایک گمان یہ ہے کہ”الحمد”سے مراد حمد و ثناء کے سب مصداق ہیں۔ہر حمد کرنے والا جب حمد بجا لاتا ہے تو اللہ کے نام سے حمد بجا لاتا ہے۔یعنی حمد کرنے والا بذات خود ایک اسم ہے اور اسکے تمام اعضاء و جوارح بھی اسماء ہیں،اور حمد جو انسان کے وسیلے سے وقوع پذیر ہوتی ہے اس وجہ سے کہ وہ ایک اسم ہے،یعنی حمد کا بجا لایا جانا خدا کے نام سے ہوتا ہے۔
عہد معارف ، امام خمینی