صلح امام حسنؑ کے اثرات رہبر معظم کی نگاہ میں
امام حسن مجتبیؑ اگر صلح نہ کرتے تو خاندان رسالت کے تمام افراد مارے جاتے اور معاویہ ان میں سے کسی ایک کو بھی زندہ نہ چھوڑتا کہ وہ اسلام کے اصلی اقدارکی حفاظت کر سکیں۔ سب کچھ ختم ہو جاتا اور اسلام کا نام لینے والا کوئی نہ بچتا اور واقعہ عاشورا کی نوبت بھی نہ آتی۔ یعنی
صلح امام حسنؑ یعنی اسلامی اقدار کی حفاظت
اگر امام حسنؑ معاویہ کے ساتھ جنگ کو جاری رکھتے تو اس کے نتیجے میں خاندان رسالت کے تمام افراد شہید ہو جاتے۔امام حسینؑ کے ساتھ ساتھ حجر بن عدی جیسے اور بھی نامور اصحاب قتل کر دئے جاتے۔ کوئی ایسا شخص باقی ہی نہیں بچتا جو اسلام کے حقیقی اقدار کی حفاظت کر سکے۔ اس لئے امام حسنؑ نے صلح کی اور یہ امام حسن علیہ السلام کا اسلام پر بہت بڑا احسان ہے۔
صلح کی شرائط نے معاویہ کی سیاست کو متزلزل کر دیا
البتہ صلح امام حسنؑ ایک زبردستی صلح تھی لیکن پھر بھی ایک صلح تو واقع ہوئی تھی لیکن امام حسنؑ دل سے اس کے لئے راضی نہ تھے۔ اس لئے امام حسنؑ نے جن شرائط پر معاویہ سے صلح کی، ان شرائط نے معاویہ کی سیاست کو متزلزل کر دیا تھا۔صلح امام حسنؑ اور اس کی شرائط بھی ایک الٰہی تدبیر تھی۔ ’’وَمَكَروا وَمَكَرَ اللَّهُ‘‘ یعنی
امام حسنؑ نے تشیع کی بنیادوں کو بچایا
اگر امام حسنؑ اس وقت معاویہ سے جنگ کرتے تو یقیناً مارے جاتے اور وہ بھی اپنے ہی اصحاب کے ہاتھوں، جنہیں معاویہ کے جاسوسوں نے بھاری رقوم دے کر خرید لیا تھا اور معاویہ کہتا کہ حسن ابن علی علیہما السلام کو میں نے تو نہیں مارا بلکہ خود ان کے اصحاب ہی نے مارا ہے، عین ممکن ہے کہ وہ اس صورت امام حسنؑ کے لئے مجلس ترحیم کا بھی اہتمام کرتا لیکن بعد میں وہ امیر المومنینؑ کے اصحاب کو ایک ایک کر کے تہہ تیغ کر دیتا اور شیعہ نام کا کوئی ایک شخص بھی باقی نہ بچتا، جو بیس سال بعد کوفہ میں امام حسینؑ کو دعوت دے سکے۔لہذا امام حسنؑ نے تشیع کی بنیادوں کو بچایا تاکہ بیس پچیس سال بعد حکومت کی باگ ڈور اہل بیت رسولﷺ کے ہاتھ میں آجائے۔
کتاب: ڈھائی سو سالہ انسان، ص ۱۵۰ الی ۱۵۱، رہبر معظم سید علی خامنہ ای؛ سے اقتباس