جنگ غزہ و لبنان میں فتح و نصرت کیلئے رہبر معظم کی خصوصی تاکیدات!
شہداء، شہادت کی چوٹی کے مسافر از رہبر انقلاب
شہداء، اللہ کے منتخب بندے
جہاں تک شہیدوں کی بات ہے تو شہداء، منتخب شدہ ہیں۔ خداوند متعال کی جانب سے منتخب شدہ ہیں۔ شہیدوں نے صحیح راستے کا انتخاب کیا ہے، خدا نے منزل تک پہنچنے کے لیے ان کا انتخاب کیا۔
شہداء کی قدر و قیمت کا اندازہ لگانا ناممکن
ہمارے مادی اور دنیوی معیارات اور کسوٹیوں سے شہیدوں کی قدروقیمت کا اندازہ لگایا جانا ممکن نہیں ہے۔ شہداء، دنیا کی سب سے برتر تجارت میں کامیاب رہے ہیں: يًّـاَيُّھَا الَّذينَ ءامَنوا ھَـل اَدُلُّكُـم عَليّْ تِجـارۃٍ تُنجيكُم مِن عَذابٍ اَليمٍ. تُؤمِنونَ بِاللہِ وَ رَسولِہ؛ وَتُجاھِدونَ في سَبيلِ اللہِ بِاَموالِكُم وَ اَنفُسِكُم … الی آخرہ۔ اس تجارت کے سب سے بڑے فاتح ہمارے شہداء ہیں۔ یا اِنَّ اللہَ اشـتری من المُـؤمِنين اَنفُسَھُم وَ اَموالَھُم بِاَنَّ لَھُمُ الجَنَّـۃ اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتا ہے؟
روحانیت، شہادت کی چوٹی کا راستہ
یہاں پر ایک نکتہ ہے جو ہم سب کے مد نظر رہنا چاہیے اور وہ یہ ہے کہ شہادت، چوٹی ہے اور بغیر دامن کے چوٹی کا کوئي مطلب نہیں ہے۔ ہر چوٹی کا ایک دامن ہوتا ہے، ہم میں سے بہت سے لوگ، اس چوٹی تک پہنچنے کی تمنا رکھتے ہیں۔ تو ہمیں دامن سے گزرنا ہوگا، اس چوٹی کے دامن میں راستہ تلاش کرنا ہوگا اور اس راستے پر چلنا ہوگا تاکہ ہم چوٹی تک پہنچ سکیں ورنہ دامن سے گزرے بغیر چوٹی تک پہنچنا ممکن نہیں ہے۔ یہ دامن اور یہ راستہ کیا ہے؟ اخلاص ہے، ایثار ہے، صداقت ہے، روحانیت ہے، مجاہدت ہے، عفو و درگزر ہے، اللہ کی جانب توجہ ہے، عوام کے لیے کام ہے، انصاف کے لیے کوشش ہے، دین کی حاکمیت کے قیام کی سعی ہے۔ یہ چیزیں ہیں جو راستے کا تعین کرتی ہیں اور اگر آپ اس راہ پر چلے تو ممکن ہے کہ چوٹی تک پہنچ جائيں۔ جو شخص چوٹی تک پہنچتا ہے اسے اسی راستے پر چلنا ہوگا، اسی راہ سے گزرنا ہوگا۔ روحانیت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔
شہید شہریاری کی داستان
میں نے کہیں پڑھا کہ شہید شہریاری ایک رات دیر تک ایک پیچیدہ سائنسی گتھی پر کام کر رہے تھے اور اسے حل نہیں کر پائے۔ ان کے شاگرد نقل کرتے ہیں -اس بات کو اس کتاب میں لکھا تھا- کہ شہید نے اس مسئلے پر بہت زیادہ کام کیا اور جب اسے حل نہیں کر سکے تو کہا کہ یونیورسٹی کی مسجد میں چلتے ہیں -میرے خیال میں شہید بہشتی یونیورسٹی تھی- ہم مسجد میں گئے، انھوں نے پوری توجہ سے دو رکعت نماز پڑھی، نماز کے بعد کہا کہ سمجھ میں آ گيا، اس کا حل خدا نے مجھے بتا دیا ہے۔ اٹھے، آئے اور گتھی کو سلجھا دیا۔ روحانیت یہ ہے؛ خدا کی راہ ایسی ہے۔
!اس کے بغیر ممکن نہیں
جب انسان نے یہ کام کر دیا، اس راستے پر آگے بڑھ گيا تو پھر چوٹی پر پہنچنا ممکن ہو جاتاہے، آسان ہو جاتا ہے۔ ہم نہیں کہتے کہ یقینا ہو جائے گا لیکن ممکن ہو جاتا ہے۔ اس راستے پر چلے بغیر، چوٹی پر پہنچنا ممکن نہیں ہے۔