اسلام میں سترپوشی کا فلسفہ از شھید مطہری

اس میں شک نہیں ہے کہ ہر وہ چیز جو ازدواجی روابط کو مستحکم کرے اسے روبہ عمل لانا چاہئے اور ہر وہ چیز جو ازدواجی روابط میں کمزروی کا باعث ہو اسے ختم کر دینا چاہئے۔

خاندانی روابط میں استحکام

ازدواجی زندگی کے دائرے میں جنسی لذت اندوزی میاں بیوی کے رشتے کو مستحکم کرتی ہے اور انہیں ایک دوسرے کے قریب لاتی ہے۔ سترپوشی کا فلسفہ اور غیر جنسی تعلقات کی ممانعت کا سبب یہ ہے کہ باعتبار نفسیات گھریلو ماحول میں انسان کی قانونی بیوی اسے خوشنود کرےجبکہ جنسی آزادی کے ماحول میں باعتبار نفسیات قانونی بیوی مرد کی رقیب اور داروغہ سمجھی جاتی ہے جس کے نتیجے میں گھر میں دشمنی اور نفرت کی فضا قائم ہوجاتی ہے۔آج کل کے نوجوانوں کا شادی سے انکار کرنے کا سبب بھی یہی ہے۔

 

 

 

تہذیب مغرب نے عورتوں کو بازاری جنس بنا دیا

حالانکہ پچھلے وقتوں میں شادی نوجوانوں کی دلی تمنا ہوا کرتی تھی اور جب تک تہذیب مغرب نے عورتوں کو بازاری جنس نہیں بنایا تھا نوجوان شب وسال کو تخت شاہی سے کم نہیں سمجھتے تھے۔ آزاد جنسی تعلقات نوجوان لڑکوں کو شادی سے روکتے ہیں، اس ماحول میں نوجوان لڑکے صرف اسی وقت یہ اقدام کرتے ہیں کہ جب ان کی جوانی کا جوش ٹھنڈا ہونے لگتا ہے، ایسے موقع پر وہ اولاد یا پھر اپنی خدمت کے لئے عورت کے خواہش مند ہوتے ہیں۔

مرد کا یہ طرز عمل ازدواجی بندھن کو کمزور کر دیتا ہے اور بجائے اس کے کہ ایک گھر سچی چاہت کی بنیاد پر وجود میں آئے جہاں میاں بیوی ایک دوسرے کو اپنی خوش نصیبی کا سبب سمجھیں، ان میں رقیبانہ انداز فکر پیدا ہوتا ہے اور وہ ایک دوسرے کو اپنی آزادی کا لٹیرا سمجھنے لگتے ہیں، ظاہر ہے کہ ایسے ماحول میں گھریلو زندگی کس طرح پرسکون ہو سکتی ہے۔

زوجین میں الفت و یگانگت کا تحفظ ضروری!

برٹرینڈ رسل جیسے بعض افراد کا خیال ہے کہ مرد عورت پر اس لئے پابندی لگاتا ہے کہ وہ اپنی نسل کی پاکیزگی کا خواہاں ہے۔ اس کی اس مشکل کو مانع حمل ادویات نے آسان کر دیا ہے جن بدولت عورت اب نسل پر اختیار رکھتی ہے۔ لیکن یہاں مسئلہ صرف نسل کی پاکیزگی کا ہی نہیں ہے بلکہ ایک اور مسئلہ زوجین کے درمیان سچے اور پاک جذبات اور آپس میں الفت و یگانگت کا بھی ہے۔ یہ بات اسی وقت پیدا ہوسکتی ہے کہ جب زوجین نا محرموں سے پرہیز کریں۔ مرد کسی دوسری عورت پر نظر نہ رکھے اور عورت بھی اپنے شوہر کے سوا کسی دوسرے کو محظوظ نہ کرے۔ نیز ہر قسم کے جنسی تعلقات سے صف نظر کیا جائے حتی کہ شادی سے قبل کے مرحلےمیں بھی اس کا خیال رکھا جائے۔

علاوہ از یں اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ رسل جیسے افراد کی پیروی میں ’’جدید جنسی اخلاق‘‘ کی حامل ترقی یافتہ عورت جو اپنے محبوب کے ساتھ رنگ رلیاں مناتی ہے اپنے شوہر سے قرار پانے والے حمل کو ضائع نہیں کرے گی اور آشنا سے پیدا ہونے والے بچے کو شوہر سے نسبت نہیں دے گی۔

ایسی عورت یقیناً یہی چاہے گی کہ اس کا بچہ اس کے محبوب کی نشانی ہو۔ اسی طرح مرد بھی فطرتاً ایسی عورت سے صاحب اولاد ہونا چاہتا ہے جسے وہ دل سے چاہتا ہو نہ کہ اس عورت سے جو قانون کی رو سے اس کے پلے باندھ دی گئی ہو۔ اہل یورپ نے عملاً یہ دکھا دیا ہے کہ احتیاط اور اسقاط کے وسائل کی کثرت کے باوجود ناجائز بچوں کی تعداد تشویشناک حد تک بڑھ گئی ہے۔

کتاب: فلسفہ حجاب، ص۵۳ الی ۵۵، شہید مطہری؛ سے اقتباس

متعلقہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *