شادی کی سادہ تقریبات، معاشرے کی بقاء کیلئے اہم مسئلہ! از رہبر انقلاب
فطرت اور فطریات کا تصور از شھید مطہری
فطرت اور غریزہ کے درمیان فرق
اس لفظ کا انسانوں پر اطلاق ہوتا ہے اور لفظ ”فطرت“طبیعت اور غریزہ کی طرح ایک تکوینی مفہوم رکھتا ہے یعنی انسان کی سرشت کا ایک حصہ ہے۔ تکوینی سے ہماری مراد یہ ہے کہ یہ ایک اکتسابی یا کسبی نہیں ہے یہ ”غریزہ“ سے بالاتر ایک آگاہانہ چیز ہے۔ انسان جو کچھ جانتا ہے وہ اپنے اس علم کے بارے میں آگاہی حاصل کر سکتا ہے یعنی انسان کچھ ”فطریات“ کا حامل ہے اور یہ جانتا ہے کہ اس میں کچھ فطریات (فطری جبلتیں) ہیں۔ فطریات“ کا ”غریزہ“ سے ایک اور فرق یہ ہے کہ غریزہ کا تعلق حیوان کی مادی زندگی سے ہے جبکہ انسان کی ”فطریات“ ایسے امور سے مربوط ہے جنہیں ہم امور استثنائی کہتے ہیں یعنی حیوانی امور سے ہٹ کر۔
کیا انسان فطریات رکھتا ہے؟
پس درحقیقت ”فطرت“ سے متعلق بحث کہ وہ امور جو خالصتاً انسانی امور ہیں اور حیوانی امور سے ہٹ کر ہیں آیا تمام کسبی ہیں اور ان کی بنیاد خود انسان کے اندر موجود نہیں ہے یا پھر یہ کہ کیا ان تمام مسائل کا سرچشمہ انسان کی ذات ہے اور یہ انسان کے لئے فطری ہیں؟ مثلاً ایک موضوع حقیقت خواہی کے نام سے ہمارے سامنے ہے جس کا اپنا ایک مفہوم ہے اور یہ ایک الگ موضوع ہے۔ ”حقیقت خواہی“ سے میری مراد یہ ہے کہ انسان چاہتا ہے کہ اس کے سامنے جو حقیقتیں مخفی ہیں ان کا انکشاف کرے۔
پہلے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا انسان واقعی طالب حقیقت ہے؟ اس بات کا امکان ہے کہ اس بات کو تسلیم نہ کیا جائے کہ انسان حقیقت کا طالب ہے اور اگر طالب حقیقت ہے بھی تو محض اپنے مفاد کی خاطر۔ یہ بحث علم کے بارے میں ہے چونکہ علم انسان کے لئے حقائق کو واضح کرتا ہے اور یہ بھی سوال ہے کہ آیا انسان خود علم کی ذاتی قدر اور اہمیت کا قائل ہے یا اسے فقط ایک وسیلے کی سی اہمیت دیتا ہے اس میں شک نہیں کہ علم انسان کے لئے ایک ذریعہ ہے۔
کہتے ہیں ”توانا بود ہر کہ دانا بود“ یعنی علم انسان کو طاقت عطا کرتا ہے جب علم اسے طاقت بخشتا ہے تو گویا یہ ایک وسیلہ ہے کہ جس کے ذریعے وہ اپنی زندگی کو ترقی دے سکتا ہے۔ لیکن یہ سوال بھی ہے کہ آیا علم انسان کے لئے خود سے کوئی چیز ہے بھی یا نہیں؟ اگر ہم اس بات کے قائل ہو جائیں کہ علم انسان کے لئے ذاتی اہمیت رکھتا ہے یعنی آج کا انسان حقیقت کا طالب ہے تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے یہ حقیقت خواہی سماجی ضرورتوں کا نتیجہ ہے یا پھر انسانی سرشت کا حصہ ہے یعنی کیا انسان حقیقت خواہ ہی پیدا ہوا ہے؟
کتاب: فطرت، شہید مرتضیٰ مطہری؛ سے اقتباس