یمن کی جنگ اوباما کی ڈیموکریٹ حکومت کے زمانے میں آل سعود نے شروع کی اور امریکا کے گرین سگنل پر کی۔ امریکا نے انھیں اجازت دی اور ان کی مدد کی، بے شمار فوجی وسائل ان کے حوالے کیے۔ کس لیے؟ اس لئے کہ یمن کے نہتے عوام پر اتنے بم برسائيں کہ پندرہ دن میں یا ایک مہینے میں وہ ان کے سامنے جھک جائيں۔ انھوں نے غلطی کی!
اب چھے سال ہو چکے ہیں اور وہ ایسا نہیں کروا سکے۔ مارچ کے یہی ایام تھے کہ یمن پر حملہ شروع ہوا تھا۔ اس دن سے چھے سال گزر چکے ہیں اور یہ لوگ یمن کے عوام کو جھکا نہیں سکے۔ امریکیوں سے میرا سوال یہ ہے کہ جس دن تم نے آل سعود کو یمن کی جنگ شروع کرنے کا گرین سگنل دیا تھا کیا تمھیں معلوم تھا کہ انجام کیا ہوگا؟ تم جانتے تھے کہ سعودی عرب کو کس دلدل میں پھنسا رہے ہو کہ اب وہ نہ تو اس میں باقی رہ سکتا اور نہ ہی باہر نکل سکتا ہے۔
اس کے لیے دو طرفہ مشکل ہے۔ نہ تو وہ جنگ کو روک سکتا ہے اور نہ ہی اسے جاری رکھ سکتا ہے، اس کے لیے دونوں صورتوں میں نقصان ہے۔ تم امریکی جانتے تھے کہ سعودی عرب کو کس مصیبت میں دھکیل رہے ہو۔ اگر جانتے تھے اور پھر بھی تم نے ایسا کیا تو تمھارے حلیفوں کی بد نصیبی ہے کہ تم ان کے بارے میں اس طرح عمل کرتے ہو۔ اگر نہیں جانتے تھے تب بھی تمھارے حلیفوں پر وائے ہو جو تم پر یقین کرتے ہیں اور اپنے پروگراموں کو تمھارے حساب سے تیار کرتے اور آگے بڑھاتے ہیں جبکہ تم خطے کے حالات سے ناواقف ہو۔
علاقے کے تمام مسائل کے بارے میں امریکی غلط فہمی کا شکار ہیں۔ اس وقت بھی وہ غلطی کر رہے ہیں۔ وہ صیہونی حکومت کی جو ظالمانہ حمایت کر رہے ہیں، غلط ہے۔ وہ شام میں غاصبانہ طریقے سے داخل ہو گئے
ہیں شرق فرات میں وسیع پیمانے پر موجود ہیں، یہ یقینی طور پر غلط ہے اور یمن کے مظلوم عوام کی سرکوبی میں سعودی عرب کی حکومت کا ساتھ دینا بھی غلط ہے۔
فلسطین کے بارے میں امریکا کی پالیسیاں غلط ہیں، زور دے کر کہا کہ عالم اسلام میں مسئلۂ فلسطین کبھی فراموش نہیں ہوگا، یہ اسی بات پر خوش ہیں کہ دو چار حقیر حکومتیں ان سے، صیہونی حکومت سے رابطہ قائم کر لیں اور تعلقات کو معمول پر لے آئیں۔ ان کا کوئي اثر ہی نہیں ہے، دو تین غیر مؤثر حکومتوں کی وجہ سے امت مسلمہ مسئلۂ فلسطین کو فراموش نہیں کرے گی اور مسئلۂ فلسطین کو نظر انداز نہیں کرے گي، اسے امریکی جان لیں، یمن کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔