شادی کی سادہ تقریبات، معاشرے کی بقاء کیلئے اہم مسئلہ! از رہبر انقلاب
کربلا، معیارِ حاکمیت میں تبدیلی کا نتیجہ
ایک وہ زمانہ تھا کہ جب مسلمانوں کیلئے تمام شعبہ ہائے زندگی میں اسلام کی پیش رفت، ہر قیمت پر رضائے الٰہی کا حصول، اسلامی تعلیمات کا فروغ اور قرآن و قرآنی تعلیمات سے آشنائی ضروری و لازمی تھی۔ حکومتی نظام اور تمام محکمے و ادارے ، زھد و تقویٰ کے حصول میں کو شاں اور دنیا و مافیھا اور خواہشات نفسانی سے بے اعتنائی برتنے کے سائے میں پیش پیش تھے۔
حاکمیت کا معیار، تقوی اور جہاد
اِنہی حالات میں علی ابن ابیطالب جیسی ہستی خلیفہ بنتی ہے اور حسین ابن علی ایک ممتاز شخصیت کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔ اِس لیے کہ اِن ہستیوں میں دوسروں سے زیادہ ہدایت و راہنمائی اور امامت و خلافت کے معیارات وجود رکھتے تھے۔
جب تقویٰ، دُنیا سے بے اعتنائی اور راہ خدا میں جہاد؛ امامت و خلافت کا معیار ہوں اور ایسے افراد جو اِن صلاحیتوں کے مالک ہوں ، حکومتی باگ ڈور سنبھالیں اور زمام کار کو اپنے ہاتھوں میں لیں تو معاشرہ، اسلامی معاشرہ ہوگا۔
الہی معیار حاکمیت سے انحراف کا انجام
لیکن جب امامت و خلافت کے انتخاب کے معیار ہی تبدیل ہوجائیں اور سب سے زیادہ دنیا طلب ، سب سے زیادہ شہوتوں اور خواہشات کا اسیر و غلام ، شخصی منافع کو جمع کرنے کیلئے سب سے زیادہ عیار و چالاک اور حیلہ گر اور دوسروں کی نسبت صداقت و سچائی سے بیگانہ و ناآشنا فرد حکومت کی باگ ڈور سنبھالے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ عمر ابن سعد، شمر اور عبید اللہ ابن زیاد جیسے افراد زیادہ ہوں گے اور حسین ابن علی جیسے افراد کو مقتل میں بے دردی سے قتل کردیا جائے گا۔
الٰہی معیار اور اقدار کی پاسداری کریں
دلوں میں میں تڑپ رکھنے والے افراد اِس بات کا موقع ہی نہ آنے دیں کہ معاشرے میں خدا کی طرف سے مقرر کیے گئے معیار اور اقدار تبدیل ہوں۔ اگر انتخابِ خلیفہ کیلئے تقویٰ کا معیار معاشرے میں تبدیل کردیا جائے تو ظاہر سی بات ہے کہ حسین ابن علی جیسی با تقویٰ ہستی کا خون آسانی سے بہایا جاسکتا ہے۔
اگر امّت کی زِعامت و ہدایت کیلئے دنیاوی امور میں عیاری ومکاری، چاپلوسی، کوتاہی، ناانصافی، دروغگوئی اور اسلامی اقدار سے بے اعتنائی ، معیار بن جائے تو معلوم ہے کہ یزید جیسا شخص تخت سلطنت پر براجمان ہوجائے گا اور عبید اللہ ابن زیاد جیسا انسان ، عراق کی شخصیت ِ اوّل قرار پائے گا۔
اسلام اور اسلامی انقلاب کا ہدف
اسلام کا کام ہی یہ تھا کہ (زمانہ جاہلیت کے) اِن معیاروں کو تبدیل کرے اور ہمارے اسلامی انقلاب کا بھی ایک مقصد یہ تھا کہ بین الاقوامی سطح پر معروف و رائج باطل ،غلط اورمادّی معیاروں کے مقابل سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائے اور اُنہیں تبدیل کردے۔
آج کی دُنیا، کذب و دروغ، ظلم و ستم، شہوت پرستی اور معنوی اقدار پر مادی اقدار کو ترجیح دینے کی دُنیا ہے؛ یہ ہے آج کی دنیا اور اِس کی یہ روش صرف آج سے مخصوص نہیں ہے، دنیا میں صدیوں سے روحانیت رُوبہ زوال اور کمزور رہی ہے۔
اِس معنویت و روحانیت کو ختم کرنے کیلئے باقاعدہ کوششیں کی گئی ہیں؛صاحبانِ قدرت واقتدار، دولت پرستوں اور سرمایہ داروں نے مادی نظام کاایک جال پوری دنیا میں پھیلایا ہے کہ جس کی سربراہی امریکہ جیسی بڑی طاقت کررہی ہے۔
سب سے زیادہ جھوٹی، سب سے زیادہ مکّار، انسانی مقامات و درجات میں سب سے زیادہ بے اعتنائی برتنے والی،انسانی حقوق کو سب سے زیادہ پائمال کرنے والی اور دنیا کے انسانوں کیلئے سب سے زیادہ بے رحم حکومت اِس مادی نظام کا نظم و نسق سنبھالے ہو ئے ہے اور اِس کے بعد دوسری طاقتیں اپنے اپنے درجات کے لحاظ سے اِ س میں شریک ہیں؛ یہ ہے ہماری دنیا کی حالت۔
کتاب: امام حسین، دلُربائے قلوب، رہبر معظم سید علی خامنہ ای سے اقتباس