کاروانِ کوفہ و شام کے سپہ سالار، امام زین العابدین ع از رہبر انقلاب

ایک شخص کا سوال!

امام زین العابدین علیہ السلام واقعہ عاشوراء کے بعد جب مدینے واپس لوٹے تو اس دوران دس، گیارہ میہنے کا فاصلہ آگیا تھا۔اس وقت سے کہ جب یہ خاندان آل محمد مدینے سے خارج ہوئے اور دوبارہ واپسی آئے۔ایک شخص امام عالی مقام کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ نے دیکھا کہ کربلا جانے کا کیا انجام ہوا؟

 

 

 

 

قافلہ اہلبیت کی شان و شوکت!

ظاہرا امام سے اس نے صحیح سوال کیا کیونکہ یہ قافلہ اس حالت میں مدینے سے گیا تھا کہ امام حسین بن علی؛اہل بیت کے خورشیدِ درخشاں،رسول خدا اور امیر المومنین کے فرزند،رسول اللہ کے ہر دل عزیز انکے درمیان تھے اور آپکا سایہ انکے سروں پہ تھا۔امیر المومنین کی پیاری بیٹی عزت و احترام کے ساتھ مدینے سے گئی تھیں۔امیر المومنین کے بیٹے جناب عباس علمدار،امام حسین کے بیٹے،امام حسن کے بیٹے اور بنی ہاشم کے مشہور و معروف اور کڑیل جوان اس قافلے کے ہمراہ تھے۔

 

 

 

بدن زندہ لیکن روح مردہ!

لیکن آج جب یہ قافلہِ اہل بیت واپس لوٹا تو حالت یہ کہ کوئی مرد نہیں سوائے بیمار کربلا کے۔وہ بیبیاں ہیں جو اسیری میں رہی تھیں اور رنجیدہ ہیں۔آج امام حسین نہیں ہیں،علی اکبر بھی نہیں یہاں تک کہ شیر خوار بچہ بھی نہیں۔امام آپ نے دیکھا جانے کا انجام! نقل روایت ہے کہ امام نے جواب دیا کہ سوچو اگر نہیں جاتے تو کیا ہوتا؟صحیح کہا آپ نے اگر نہیں جاتے تو بدن تو زندہ رہتے لیکن اسلام کی حقیقت مٹ جاتی روح نابود ہوجاتی،ضمیر مردہ ہوجاتے،حکمت و منطق؛تاریخ میں یرغمال ہوجاتی۔حتی کہ اسلام کا نام،فقط نام بھی باقی نہیں رہتا۔

 

 

 

عہد معارف ، رہبر معظم

متعلقہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *