اسوہ حسنہ از رہبر انقلاب (مقالہ+پوسٹرز+ویڈیو)
ہر چیز میں اسوہ
اللہ تعالیٰ نے ہم مسلمانوں کو نبی کی پیروی کا حکم دیا۔ یہ پیروی زندگی کے تمام پہلوؤں میں ہے۔ وہ عظیم ایک رول ماڈل اور ہر چیز میں ایک اسوہ ہیں اور نہ صرف کلام میں، بلکہ اپنے طرز عمل میں ، طرز زندگی میں ، لوگوں اور گھرانے کے ساتھ برتاؤ کرنے میں، اور دوستوں کے ساتھ ان کے برتاؤ میں ، اور دشمنوں اور اجنبیوں کے ساتھ اس کے سلوک میں ، اور محروموں اور اغنیاء کے ساتھ ان رویے میں! ہمارا اسلامی معاشرہ حقیقی معنوں میں ایک مکمل اسلامی معاشرہ بن جائے گا، اگت یہ رسول اللہ (ص) کے طرز عمل کے مطابق ڈھل جائے۔
پیغمبر اسلام کی عظیم شخصیت نبیوں اور اولیاء کے سلسلے میں سب سے افضل ہیں، اور ہم مسلمانوں کو اس عظیم ہستی کی تقلید کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ جہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «وَلَکُم فی رَسولِاللهِ اُسوَةٌ حَسَنَةٌ» ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پرعمل کرنا ہوگا۔ اور یہ صرف نماز میں متعدد رکعتیں ادا کرنے سے نہیں ہوتا ہے ، بلکہ ہمیں اپنے طرز عمل ، اپنے کلام، اپنی اجتماعیات اور اپنے معاملات میں ان کی پیروی کرنا ہوگی۔ لہذا ہمیں ان کی سیرت کو جاننا ہوگا!
پیغمبر اکرم کا امین ہونا اور ان کی امانت داری ایسی تھی کہ عہد جاہلیت میں انھیں ‘امین’ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ لوگ جس چیز کو بھی اپنے لیے بہت زیادہ قیمتی سمجھتے تھے، اسے ان کے پاس امانت کے طور پر رکھوا دیتے تھے اور انھیں اطمینان رہتا تھا کہ وہ امانت انھیں صحیح سالم واپس ملے گي۔ یہاں تک کہ اسلام کی دعوت شروع ہونے اور قریش کے ساتھ دشمنی کی آگ بھڑکنے کے بعد بھی، اگر وہی دشمن کسی چیز کو کہیں امانت کے طور پر رکھوانا چاہتے تھے تو آ کر اسے پیغمبر کے حوالے کرتے تھے۔ لہذا آپ نے سنا ہوگا کہ جب پیغمبر اکرمؐ نے مدینہ ہجرت فرمائی انہوں نے امیرالمومنینؑ کو مکہ میں چھوڑا تاکہ لوگوں کی امانتوں کو واپس لوٹائیں۔ اس س پتہ چلتا ہے کہ اسوقت بھی کچھ امانتیں پیغمبرؐ کے پاس موجود تھیں۔ مسلمانوں کی امانتیں نہیں بلکہ ان کافروں کی امانتیں جو ان کے ساتھ دشمن تھے۔
لوگوں کے درمیان
رسول مقبول دو جہاں اخلاق و طرز عمل ، لوگوں سے محبت اور لوگوں کے درمیان انصاف کے قیام کو نہیں بھولے۔ وہ عام لوگوں کی طرح تھے اور ان کے درمیان رہتے تھے۔ وہ نوجوانوں اور معاشرے کے نچلے طبقے کے ساتھ انسیت قائم کرتے تھے۔ وہ ان کے ساتھ کھاتے تھے اور ان کے ساتھ بیٹھتے تھے۔ آپؐ نے انہیں طاقت ، دولت اور حکومت کے ذریعے تبدیل نہیں کیا۔ سختیوں کے دنوں میں آپؐ کا برتاو ان دنوں سے مختلف نہیں تھا جب مصیبتیں دور ہوگئ تھیں۔ وہ ہر حال میں لوگوں کے ساتھ تھے اور ان کے درمیان۔
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عبادت ایسی عبادت تھی کہ محراب عبادت میں کھڑے رہ رہ کر آپ کے پائے مبارک متورم ہو جاتے تھے۔ وہ رات کا ایک بڑا حصہ شب جاگ کر، عبادت، دعا و استغفار اور اللہ کے حضور گریہ و زاری میں گزارتے تھے۔ خداوند عالم سے دعا و مناجات اور استغفار کیا کرتے تھے۔ ماہِ رمضان، شوال اور رجب کے علاوہ جس طرح میں نے سنا ہے کہ سال کے بقیہ ایام اس گرمی میں، ایک چھوڑ کر روزے رکھا کرتے تھے اصحاب نے آنحضرت سے عرض کی: اے خدا کے رسول! آپ کا تو کوئي گناہ ہی نہیں، جیسا کہ سورہ فتح کے آغاز میں آیا ہے: لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ پھر اتنی زیادہ دعا، عبادت اور استغفار کس لیے؟ وہ فرماتے تھے: “افلا اکون عبداً شکورا” کیا میں خدا کا شاکر بندہ نہ رہوں جس نے مجھے یہ ساری نعمتیں عطا کی ہیں؟