واقعہ کربلا اور معاشرتی گمراہی

موجودہ زمانے میں ہمیں چاہیے کہ اِس جہت و زاویے سے غور وفکر کریں۔ آج ہم بھی ایک اسلامی معاشرہ رکھتے ہیں،ہمیں تحقیق کرنی چاہیے کہ اُس اسلامی معاشرے کو کون سی آفت و بلا نے آگھیرا تھا کہ جس کے نتیجے میں یزید اُس کا حاکم بن بیٹھا تھا ( اور لوگ اُسے دیکھتے اور جانتے بوجھتے ہوئے بھی خاموش تھے)؟

 آخر کیا ہوا کہ امیر المومنینؑ کی شہادت کے بیس سال بعد اُسی شہر میں کہ جہاں امیر المومنین حکومت کرتے تھے اور جو آپ کی حکومت کا مرکز تھا، اولاد علؑی کے سروں کو نیزوں پر بلند کرکے پھرایا جاتا ہے (اور آل نبی صکی خواتین کو قیدی بناکر اُسی شہر کے بازاروں اور درباروں میں لایا جاتا ہے)؟

اصلی عامل؛ معاشرتی گمراہی اور انحراف

اگر ایک معاشرے میں ایک بیماری موجود ہو تو وہ بیماری اُس معاشرے کوکہ جس کے حاکم پیغمبر اکرم ۰ اور امیر المومنین جیسی ہستیاں ہیں، صرف چند دہائیوں میں اُن خاص حالات سے دوچار کردے تو سمجھ لیناچاہیے کہ یہ بیماری بہت ہی خطرناک ہے، لہٰذا ہمیں بھی اِس بیماری سے ڈرنا اور خوف کھانا چاہیے۔
 اُس معاشرے کے موسس و بانی خود پیغمبر اکرم
ص تھے کہ جو آپ ص کے وصال کے چند سالوں بعد ہی اِس بیماری میں مبتلا ہوگیا تھا۔ ہمارے معاشرے کو بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ وہ کہیں اُس بیماری میں مبتلا نہ ہوجائے، یہ ہے عبرت کا مقام!


گمراہی کے دو عناصر

عمومي سطح کے انحراف اور گمراہي کے دوعامل ہيں؛ ايک ذکرِ خدا سے دوري ، يعني خدا اور معنويت کو فراموش کرنا، خدا کي طرف توجہ، توکّل اور خدائي حساب کتاب کو زندگي سے باہر نکال پھينکنا۔ اور دوسرا عنصر ’’وَاتَّبَعُوا الشَّہوَاتَ ‘‘ ہوا و ہوس اور خواہشات کي پيروي يا لذات ِدنيوي سے لُطف اندو ز ہو کرخداو قيامت کو فراموش کردينا اور اِن سب امور کو ’’اصل‘‘ جاننا اور ہدف و مقصد کو فراموش کردينا۔

 

 ہمیں چاہیے کہ اُس بیماری کو پہچانیں (کہ اُس کی کیا علامات ہیں، اُس کے نتائج کیا ہیں اور بیمار بدن آخر میں کس حالت سے دوچار ہوتا ہے) اور اِس سے دوری و اجتناب کریں ۔ میری نظر میں کربلا کا یہ پیغام، کربلا کے دوسرے پیغاموں اوردرسوں سے زیادہ آج ہمارے لیے سب سے زیادہ ضروری ہے۔

اِس موضوع میں بہت زیادہ گفتگو کی گنجائش موجود ہے۔ میں اِس سوال کے جواب میں صرف ایک آیت قرآن کی تلاوت کروں گا۔ قرآن نے اِس جواب کو اِس طرح بیان کیا ہے اور اُس بیماری کو مسلمانوں کیلئے اِس انداز سے پیش کیا ہے اور وہ آیت یہ ہے۔ ’’فَخَلَفَ مِن بَعدِھِم خَلفٌ اَضَاعُوا الصَّلَاۃَ وَ اتَّبَعُوا الشَّہوَاتَ فَسَوفَ یلقَونَ غَیا ‘‘(سورئہ مریم / ٥٩) ،’’ اور اُن کے بعد ایک ایسی نسل آئی کہ جس نے نماز کو ضایع کیا اور شہوات و خواہشات کی پیروی کی تو یہ لوگ بہت جلد اپنی گمراہی کا نتیجہ دیکھیں گے‘‘۔

گمراہی اور انحراف کی اصل وجہ

ذکرخدا ا ور معنویت سے دوری اور خواہشات کی پیروی اس گمراہی اورعمومی سطح کے انحراف کے دوعامل اور عنصر ہیں؛ ایک ذکرِ خد سے دوری کہ جس کا مظہر نماز ہے، یعنی خدا اور معنویت کو فراموش کرنا، معنویت و روحانیت کو زندگی سے نکال دینا، خدا کی طرف توجہ، ذکر ، دعا و توسل ، خدا کی بارگاہ میں طلب و تضرّع و زاری، توکّل اور خدائی حساب کتاب کو زندگی سے باہر نکال پھینکنا۔

اور دوسرا عنصر ’’وَاتَّبَعُوا الشَّہوَاتَ ‘‘ شہوت رانی کے پیچھے جانا ، ہوا و ہوس اور خواہشات کی پیروی یا با الفاظ دیگر دنیا طلبی، مال وثروت کی جمع آوری کی فکر میں پڑنا اور لذات ِدنیوی سے لُطف اندو زہو کرخداو قیامت کو فراموش کردینااور اِن سب امور کو ’’اصل‘‘ جاننا اور ہدف و مقصد کو فراموش کردینا۔

 

 

ہدف کے حصول کی تڑپ کا دل سے نکل جانا

اگر ہدف کے حصول کی لگن و تڑپ اسلامی معاشرے سے ختم ہوجائے یا ضعیف ہوجائے ،اگر ہم میں سے ہر شخص کی فکر یہ ہو کہ وہ اپنا اُلّو سیدھا کرے، جب معاشرے کے افراداپنے انفرادی مفادات کو اجتماعی مفادات پر ترجیح دیں توظاہر سی بات ہے کہ اِس قسم کی تاویلات سے معاشرہ اجتماعی سطح پر خطرناک قسم کی بلاوں سے دُچار ہوگا۔

 

ہدف کے حصول کی تڑپ کا دل سے نکل جانا

یہ ہے اُس معاشرے کا بنیادی اور اصلی درد و تکلیف ؛ ممکن ہے ہم بھی اِس درد و بیماری میں مبتلا ہوجائیں، اگر ہدف کے حصول کی لگن و تڑپ اسلامی معاشرے سے ختم ہوجائے یا ضعیف ہوجائے ،اگر ہم میں سے ہر شخص کی فکر یہ ہو کہ وہ اپنا اُلّو سیدھا کرے، ہم دنیا کی دوڑ میں دوسروں سے کہیں عقب نہ رہ جائیں، دوسروں نے اپنی جیبوں کو بھرا ہے اور ہم بھی دونوں ہاتھ پھیلا پھیلا کر جمع کریں گے جب معاشرے کے افراداپنے انفرادی مفادات کو اجتماعی مفادات پر ترجیح دیں توظاہر سی بات ہے کہ اِس قسم کی تاویلات سے معاشرہ اجتماعی سطح پر اِس قسم کی بلاوں سے دُچار ہوگا۔

 

کتاب: امام حسینؑ، دلُربائے قلوب، رہبر معظم سید علی خامنہ ای سے اقتباس

متعلقہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *