فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی فضیلت کے چند جلوے! از رہبر انقلاب
#افکار_رہبر | واقعہ کربلا اور خواص کا کردار
واقعہ کربلا کا لبّ لباب یہ ہے کہ جب پوری دنیا ظلم و ستم اور برائیوں میں گھری ہوئی تھی تو یہ فقط امام حسین ہی تھے کہ جنہوں نے اسلام کی نجات کیلئے قیام کیا اور اتنی بڑی دنیا میں سے کسی بھی ایک (بزرگ و عظیم اسلامی شخصیت) نے اُن کی مدد نہیں کی! حتیٰ آپ کے دوستوں نے بھی یعنی وہ افراد کہ جن میں سے ہر ایک کچھ افراد یا گروہ کو یزید سے مقابلہ کرنے کیلئے میدان میں لا سکتا تھا لیکن ہرکوئی کسی نہ کسی عذر و بہانے سے میدان سے فرار کرگیا۔
واقعہ کربلا اور خواص کا کردار
ابن عباسؓ نے کوئی عذر تراشا، عبداللہ بن جعفرؓ نے کوئی بہانہ بنایا، عبداللہ بن زبیرؓ نے کسی اور شرعی حیلے کا سہارا لیا اور صحابہ او ر تابعین سے تعلق رکھنے والی باقی بزرگ ہستیوں نے کسی اور وسیلے سے اپنی جان بچانے میں عافیت سمجھی، غرض یه کہ مشہور و معروف شخصیات اور صاحبانِ مقام و منزلت نے میدانِ مبارزہ خالی کردیا۔
میدان عمل سے فرار
یہ وہ وقت تھا کہ جب یہ سب افرادباتوں کی دنیا میں اسلام کے دفاع کو اہمیت دیتے اور اُسی کی بات کرتے تھے لیکن جب عمل کی منزل آئی اور دیکھا کہ یزیدی حکومت جو ظالم ہے، رحم نہیں کرتی اور سختی سے مخالف گروہوں اور افرادکو سرکوب کرتی ہے تو اِن سب میں سے ہر ایک نے میدان عمل سے فرار کیا اور کسی نہ کسی گوشہ و کنار میں جاکر پناہ لی اور امام حسینؑ کو میدانِ جنگ میں یکتاو تنہا چھوڑ دیا۔
اور تو اور اپنے اِس کام کیلئے تو جیہات بھی کرنے لگے اور امام حسینؑ کی خدمت میں آکر اُن سے اصرار کرنے لگے کہ ’’آقا! آپ یزید کے خلاف قیام و جنگ کا خیال دل سے نکال دیں اور یہ کام انجام نہ دیں‘‘۔
تاریخ کی عجیب عبرت
یہ تاریخ کی ایک بڑی عجیب عبرت ہے کہ جہاں بڑی بڑی شخصیات خوف کا شکار ہو جا تی ہیں، جہاں دشمن اپنے تمام رُعب و دبدبے اور لاو لشکر کے ساتھ مقابلے پر آتا ہے ، جہاں سب اِس بات کا احساس کرتے ہیں کہ اگر اُنہوں نے میدان عمل میں قدم رکھا تو عالم غربت و تنہائی کا میدان جنگ اُنہیں ہضم کرجائے گا، وہ مقام کہ جہاں انسانوں کے باطن اور شخصیتوں کے جوہر پہچانے جاتے ہیں اور وہ وقت کہ جب وسیع و عریض عظیم اسلامی دنیا اپنی کثیر جمیعت و تعداد کے ساتھ موجود تھی توایسے میں مصمّم ارادوں کا مالک، آ ہنی عزم والا اور دشمن کے مقابلے میں جرآت و شہادت کا مظاہرہ کرنے والا صرف حسین ابن علی ہی تھا۔
واضح سی بات ہے کہ جب امام حسین جیسی معروف اسلامی شخصیت کوئی تحریک چلاتی یا قیام کرتی توکچھ افراد اُن کے گرد جمع ہوجاتے اور جمع بھی ہوئے۔ لیکن جب اُنہیں معلوم ہوا کہ یہ کام کتنا سخت و دشوار ہے تو یہی افراد ایک ایک کرکے امام ٴ کو چھوڑ گئے اوروہ افراد جو امام حسین کے ساتھ مکے سے چلے یا راستے میں حضرت کے ساتھ شامل ہوتے رہے، شب ِعاشورا اُن کی تعداد بہت کم رہ گئی کہ روزِ عاشورا اُن کی تعداد صرف بہتّر (٧٢) تھی!
امام حسینؑ کی عظمت اور مظلومیت
یہ ہے مظلومیت؛لیکن اِس مظلومیت کے نتیجے میں بے دردی سے قتل ہونے اور گھر والوں کے قیدی بنائے جانے کا معنی ذلت وپستی اور رُسوائی نہیں ہے۔
امام حسینؑ تاریخِ اسلام کے عظیم ترین مجاہد و مبارز ہیں کیونکہ وہ ایسے خطرناک حالات میں اتنے سخت میدانِ جنگ میں قیام کیلئے کھڑے ہوئے اور ذرّہ برابر بھی خوف و تردید کا شکار نہیں ہوئے لیکن یہی عظیم انسان اپنی عظمت و بزرگی کے برابر مظلوم ہے، یہ شخصیت جتنی عظیم و بزرگ ہے اتنی ہی مظلوم ہے اور اُس نے عالم غربت و تنہائی میں ہی درجہ شہادت کو پایا۔
کتاب: امام حسین ع دلُربائے قلوب، رہبر معظم سید علی خامنہ ای سے اقتباس