فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی فضیلت کے چند جلوے! از رہبر انقلاب
نور کی کہشاں سے 3 ستارے از رہبر انقلاب
3 ستارے
میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے اوصاف و عادات کے بارے میں تین نکات منتخب کیے ہیں اور یہ تین نقطے ایسے ہی ہیں جیسے انسان نور کی ایک کہکشاں سے تین ستارے منتخب کر لے، ہم کو اسلامی انقلاب میں ان تین مفاہیم کو مد نظر رکھنا چاہیے، انھیں اہمیت دینی چاہیے اور ان کی پیروی کرنی چاہیے۔ یہ تین نقطے، صبر، انصاف اور اخلاق ہیں۔
پیغمبر اکرم ص کی زندگی میں صبر
پیغمبر کی زندگى میں صبر ایک بڑی نمایاں چیز ہے۔ بعثت کے آغاز سے ہی خداوند عالم نے پیغمبر کو صبر کا حکم دیا ہے؛ سورۂ مدثر میں: وَ لِرَبِّکَ فَاصبِر سورۂ مزّمّل میں: وَاصبِر عَلیٰ ما یَقولون پہلے ہی قدم پر خداوند متعال پیغمبر سے کہتا کہ صبر سے کام لیں۔ صبر کا مطلب ہے استقامت، گناہ کی خواہش کے مقابلے میں انسان استقامت کرے؛ بے حالی، بے کاری اور اپنی ذمہ داری کی ادائيگی کے سلسلے میں تساہلی کے مقابلے میں انسان استقامت کرے؛ دشمن کے مقابلے میں استقامت کرے، مختلف مصیبتوں کے مقابلے میں اپنا تحفظ کرے، اپنے نفس کی حفاظت کرے، استقامت کرے۔
عدل و انصاف کا قیام بعثت کا اہم ترین ہدف!
پیغمبروں کی بعثت کا ایک اہم ترین ہدف اور شاید کہا جا سکتا ہے کہ اہم ترین وسطی ہدف، انصاف ہے۔ لَقَد اَرسَلنا رُسُلَنا بِالبَیِّنٰتِ وَ اَنزَلنا مَعَہُمُ الکـِتٰبَ وَ المیزانَ لِیَقومَ النّاسُ بِالقِسط بنیادی طور پر پیغمبروں کو بھیجنے اور آسمانی کتابیں نازل کرنے کا مقصد یہ تھا کہ عدل قائم ہو جائے، سماج عدل و انصاف پر قائم ہو جائے۔جو ہمارا دشمن ہے، اس کے بارے میں بھی ناانصافی نہیں کرنی چاہیے۔ بنابریں یہ بھی ایک دوسری ذمہ داری ہے اور اس میں بھی خطاب پہلے مرحلے میں ہم عہدیداروں سے ہے۔
پیغمبر اکرم ص کے اخلاق حسنہ کی پیروی
اور آخر میں اخلاق کا مسئلہ؛ اخلاق میں پیغمبر کی پیروی کہ جن کے بارے میں خداوند متعال نے فرمایا ہے: وَ اِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظیم عظمت کا خالق خدا جس چیز کو عظیم سمجھے وہ عظمت میں انتہائي غیر معمولی ہے: وَ اِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظیم۔ یہ اخلاق ایک لائحۂ عمل کے طور پر ہمیشہ ہماری نظروں کے سامنے ہونا چاہیے۔ ہمارا اخلاق، اسلامی اخلاق ہونا چاہیے: انکساری ہونی چاہیے، ہم میں عفو و درگزر ہونی چاہیے۔ ذاتی مسائل میں سختی نہیں کرنی چاہیے۔ عمومی مسائل میں اور عوام کے حقوق، عمومی حقوق اور دوسروں کے حقوق سے متعلق مسائل میں نہیں، وہاں تساہلی جائز نہیں ہے لیکن ذاتی مسائل میں تساہلی سے کام لینا چاہیے، سختی نہیں کرنی چاہیے۔ برادران و خواہران عزیز! عمل کرنا چاہیے، اقدام کرنا چاہیے، صرف دعوے سے بات پوری نہیں ہوتی؛ ہم دعوی کرتے ہیں کہ مسلمان ہیں، دعوی کرتے ہیں کہ اسلامی انقلاب ہیں، ہمیں حقیقت میں اسلامی ہونا چاہیے، ہمیں پیغمبر کا پیرو ہونا چاہیے۔