نوجوانوں کی دینداری اور ان کے مسائل از رہبر انقلاب
نوجوانوں کی دینداری سے متعلق دو باطل دعوے
بعض ایسے افراد جو شاید دین و مذہب سے بہت زیادہ خوش اور راضی نہیں ہیں، اپنے احساسات اور جوانوں میں دین سے روگردانی کو اسی جوان طبقہ سے منسوب کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کا دعوی یہ ہوتا ہے کہ جوان طبقہ دین و مذہب کا طالب نہیں ہے۔ ان افراد میں بھی ایسے ہوتے ہیں کہ جن کے اس دعوے میں افسوس بھی شامل ہوتا ہے جبکہ بات کو جانبداری کے ساتھ بیان کرتےہیں۔ ان کے بقول آج کے نوجوان کی خواہش ہی یہی ہے کہ وہ دین و مذہب کی پابندیوں اور چاردیواریوں سے ہی آزاد ہوجائے۔ یہ دونوں دعوے اور اقوال سرے سے بے بنیاد ہیں البتہ یہ صحیح ہے کہ نوجوانوں کے درمیان مختلف افکار، نظریات، احساسات اور عادات و اطوار پائے جاتے ہیں لیکن وہ حقیقت جو قابل تردید نہیں ہے یہ ہے کہ ہمارے ملک کے نوجوانوں کا شمار دنیا کے بہترین جوانوں میں ہوتا ہے۔
منصوبہ ساز حضرات کو چاہئے کہ جوانوں کے مسائل کی جانب توجہ دیں۔ در حقیقت میں ان لوگوں سے مخاطب ہوں جو نوجوان طبقے کے ارتقاء کے لئے منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ البتہ اپنے اس خطاب کے دوران میں آپ (جوانوں) کے لئے بھی یہ واضح کرنا چاہوں گا کہ ان مسائل میں سے کن مسائل پر اعتماد وتکیہ کیا جا سکتا ہے اور کس طرح ان مسائل کے ذریعے راہ سعادت حاصل کی جاسکتی ہے۔
یہ مسائل دو طرح کے ہیں، ان میں بعض مشکلات اور مسائل کا تعلق نوجوانوں کی ذاتی زندگی سے ہوتا ہے، یہ تعلق اس طرح کا ہے کہ جس کو ان سے جدا بھی نہیں کیا جاسکتا۔
جوانوں کے مسائل اور مشکلات
ایک نوجوان زندگی کے پہلے مرحلے میں تحصیل علم، کسب معاش اور مستقبل وغیرہ کے بارے میں فکرمند رہتا ہے۔اس کا مسقبل کیسا رہے گا کس طرح گزرے گا؟ روشن مستقبل کا ہونا اس کے لئے نہایت اہم ہوتا ہے۔ اس کے لئے بہترین ازدواجی زندگی اہمیت کی حامل ہوتی ہے، اپنی استطاعت کے مطابق وہ علم کے اعلی مدارج حاصل کرنا چاہتا ہے۔ خوشیاں، آسودگیاں اس کو اپنی طرف مائل کرتی ہیں، جمالیاتی حس ایک نوجوان کے اندر بقیہ اوصاف کے مقابل زیادہ قوی ہوتی ہے اور اس کے اندر جذبات و احساسات کا مادہ زیادہ پایا جاتا ہے، یہ ایسے مسائل اور امور ہیں جو فقط نوجوانوں کی ذاتی زندگی سے مربوط ہوتے ہیں۔
کتاب: رہبر معظم کی نوجوانوں سے گفتگو، ص 1 ؛ سے اقتباس