مشترکہ ازدواجی زندگی کا بنیادی عنصر از رہبر انقلاب
اگر میاں بیوی کی مشترکہ ازدواجی زندگی میں محبت سایہ فگن ہو تو گھر سے باہر اور گھر کے اندر کی تمام سختیاں اور مشکلات بیوی کے لئے آسان ہو جائیں گی۔
اصل ماجرا، عشق ہی تو ہے
شادی میں اصل ماجرا اور لُبِّ لباب عشق و محبت ہی تو ہے اور رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے والے لڑکے اور لڑکیاں یہ بات اچھی طرح جان لیں۔ چنانچہ یہ محبت جو ایک دوسرے کی نسبت خدا نے آپ کو دی ہے آپ کو چاہیے کہ اس کی حفاظت کریں۔ یہ انسانی رابطہ، باہمی محبت اور ہمدردی پر قائم ہے یعنی میاں بیوی کو چاہیے کہ آپس میں محبت کا برتاو کریں تاکہ یہ محبت ان کی مشترکہ ازدواجی زندگی کو آسان بنا دے۔لیکن اس بات کی طرف بھی توجہ رہے کہ محبت کے عنصر کا مال دولت ،ماڈرن زندگی اور اس قسم کی دوسری چیزوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
یہ محبت ہی ہے جو گھرانے کو پائیدار بناتی ہے ، محبت درحقیقت خوشحال اور آباد زندگی کا سرمایہ ہے اور سخت سے سخت مراحل بھی محبت کے ذریعے آسان ہو جاتے ہیں ۔اگر انسان محبت و عشق کے ساتھ راہِ خدا میں قدم رکھے تو زندگی کی تمام مشکلات اور سختیاں آسان اور تمام کام سہل ہوجائیں گے۔
دولہا دلہن کو چاہیے کہ آپس میں محبت سے پیش آئیں کیونکہ محبت وہ چیز ہے جو ایک دوسرے کے لئے ان دونوں کی حفاظت کرتی ہے۔ انہیں ایک دوسرے کے پاس محفوظ رکھتی ہے اور انہیں اس بات کی اجاز ت نہیں دیتی کہ وہ ایک دوسرے سے جدا ہوں ۔محبت بہترین ’اکسیر‘ ہے اور جہاں محبت ہوگی وہاں وفاداری بھی موجود ہو گی اور وہاں بے وفائی، خیانت اور تاریکی کا کوئی وجود نہیں ہوگا ۔جب محبت گھر میں آتی ہے تو وہاں کی فضا انس و الفت سے لبریز ،قابل تحمل اور شیریں و میٹھی ہو جاتی ہے۔
جتنا زیادہ اتنا ہی بہتر
میاں بیوی آپس میں جتنی محبت کریں وہ کم ہے ۔وہ مقام کہ جہاں محبت جتنی بھی زیادہ ہو اس میں کوئی عیب نہیں ،وہ میاں بیوی کی باہمی محبت ہے ۔یہ جتنی بھی زیادہ محبت کریں، اچھا ہے اور خود یہ محبت ایک دوسرے پر اعتماد کی فضا کو قائم کرتی ہے ۔میاں بیوی کی باہمی محبت بھی خدا سے کی جانے والی محبت کا ہی ایک حصہ ہے۔ یہ ان بہترین محبتوں میں سے ایک ہے کہ جو جتنی زیادہ ہو اتنی ہی بہتر ہے۔
محبت سے خار بھی پھول بن جاتے ہیں
میاں بیوی کو ایک دوسرے کے ساتھ محبت کا برتاو کرنا چاہیے ۔۔یہ محبت سعادت و خوش بختی کی بنیاد بنتی ہے ۔خوش بختی اس میں ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کو پسند کرتے ہوں۔
جب محبت زندگی پر حاکم ہو تو اس محبت کے ذریعے خار بھی پھول بن جاتے ہیں ۔ اگر میاں یا بیوی میں کوئی بری عادت موجود ہو لیکن دونوں کے درمیان محبت کا رشتہ قائم ہو تو وہ بری عادت بالکل ختم ہو جائے گی اور وہ محبت ، بری عادت کی تمام تاریکی و ظلمت کو ختم کر دے گی۔
محبت کسی کے حکم یا فرمان سے ہونے والی کوئی چیز نہیں ہے !
محبت کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ جو کسی کے دستور یا فرمان سے ہو جائے ۔محبت خود آپ کے اختیار میں ہے ۔آپ اپنی محبت اپنے شوہر یا بیوی کے دل میں روز بروز زیادہ کر سکتے ہیں ۔مگر کس طرح؟اچھے اخلاق ، بہتر کردار ، وفاداری اور محبت کے ذریعے۔ اگر بیوی یہ چاہتی ہے کہ اس کا شوہر اس سے محبت کرے تو اسے چاہیے کہ وہ اس کے لئے کوشش کرے ۔اس طرح اگر مرد کی خواہش ہو کہ اس کی بیوی اسے پسند کرے تو اسے بھی اس کام کے لئے محنت کرنا ہوگی کیونکہ محبت ہمیشہ محنت اور کوشش کی محتاج ہوتی ہے۔
محبت اسی صورت میں باقی رہے گی کہ جب میاں بیوی دونوں ایک دوسرے کے حقوق اور اپنی حدود کا خیال رکھیں اور اس سے تجاوز نہ کریں ۔یعنی حقیقت میں یہ دونوں کہ جو زندگی میں ایک دوسرے کے شریک ہیں اور ایک ساتھ زندگی گزارتے ہیں، اس بات کی کوشش کریں کہ ایک دوسرے کے ذہن و قلب میں اپنا ایک مقام بنائیں اور ایک دوسرے کے دل میں نفوذ کریں ۔یہ وہی معنوی نفوذ اور میاں بیوی کے درمیان قلبی رابطہ ہے جسے اسلامی حقوق بیان کرتے ہیں۔
اگر آپ کی خواہش ہے کہ یہ محبت امر ہوجائے تو بجائے یہ کہ آپ سامنے والے سے یہ توقع رکھیں کہ وہ آپ سے محبت کرے ،آپ اپنے دل سے چا ہیں کہ آپ اس پر اپنی محبت زیادہ نچھاور کریں تو خود بخود اس کی آپ سے محبت زیادہ ہو جائے گی (کیونکہ محبت فطری طور پر محبت کی پیدائش کا سبب بنتی ہے) ۔
کتاب: طُلوعِ عشق، رہبر معظم سید علی خامنہ ای؛ سے اقتباس