مسلم ابن عقیلؑ کی شہادت اور خواص کی بے بصیرتی (+ ویڈیو)
نہضت عاشورہ اور خواص کا کردار
امام حسین (علیہ السلام) کی نہضت کے ساتھ ہی ،کچھ لوگ ایسے بھی تھے ، جنھیں اگر اس بارے میں بتایا جاتا کہ “اب وقت قیام کا وقت ہے” اور وہ یہ سمجھ جاتے کہ یہ کام پریشانیوں اور مشکلات کا باعث بنے گا ، تو وہ دوسرے درجے کے فرائض سے چمٹے رہتے؛ جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں ، کچھ نے ایسا ہی کیا۔ ان لوگوں میں جو امام حسین علیہ السلام کے ساتھ نہیں چلے اور نہ گئے ، ان میں مومن اور دیندار لوگ تھے۔ سارے کے سارے دنیا دارنہیں تھے۔ اس دن عالم اسلام کے سرکردہ اور منتخب افراد میں مومنین اور وہ لوگ جو اپنا فرض نبھانا چاہتے تھے، موجود تھے۔
حالات کی صحیح تشخیص نہیں دے سکے
لیکن وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھ نہیں سکے۔ انہوں نے زمانے کی حالات کو صحیح نہیں پہچانا۔ وہ اصل دشمن کو نہیں پہچانتے تھے اور دوسرے اور تیسرے درجے کے کاموں میں مشغول رہ کر مرکزی اور اہم ذمہ داری کو کھودیتے تھے۔ یہ عالم اسلام کی ایک بڑی مصیبت رہی ہے۔ آج ہم بھی اس میں مبتلا ہوسکتے ہیں ، اور اس جو چیزاہم ہے اسے غیر اہم مسائل سے الجھا سکتے ہیں۔ اصلی ذمہ داری جو معاشرے کی حیات اور زندگی کی اساس ہے اسے تلاش کرنا ضروری ہے۔
جناب مسلمؑ کی شہادت اور خواص کی بے بصیرتی
جب ابن زیاد نے جناب مسلم کا گھیرا تنگ کرنے لئے نامہ لکھا اور کہا کہ اگر ان سے جدا نہ ہوگے تو تمہارے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہوگا۔ کیوں لوگوں نے مسلم کو تنھا چھوڑ دیا ؟ سب تو بنو امیہ سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔ بہت سوں نے تو خط لکھا تھا امام حسین علیہ السلام کو۔
بعد میں کفارہ کے طور پر توابین وجود میں آئے جن کی تعداد شہدائے کربلا سے کہیں زیادہ تھی۔ لیکن ایک شہید کربلا کا اثر ان کے ہزاروں سے کئی زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
کیوں ؟ کیوںکہ صحیح وقت پر نہیں آئے، اس چیز کے وقت کام انجام نہ دے سکے۔ دیر سے فیصلہ کیا۔
جب امام حسین ع نے قیام کیا، بہت سے خواص امامؑ کی مدد کرنے نہیں آئے اور چونکہ ان لوگوں کی تعداد جو اپنے دین کو دنیا پر قربان کرنے پر راضی تھے زیادہ تھی اس وجہ سے کوفہ میں حضرت مسلم ابن عقیلؑ کی شہادت واقع ہوجاتی ہے۔
صورتحال بدل جاتی۔۔۔ اگر!
وقت کی پہچان لازمی ہے! ضرورت کا جاننا ضروری ہے۔ فرض کریں کہ کوفہ کے کچھ لوگ (توّابین) جن کے دل امام حسینؑ پر ایمان سے پر تھے، وہ اہل بیتؑ سے بھی محبت کرتے تھے، لیکن کچھ مہینوں بعد وہ میدان میں آئے۔ وہ سب شہید بھی ہوئے، اور وہ خدا کے حضور اجر بھی رکھتے ہیں۔ لیکن جو کام انہیں کرنا چاہیے تھا وہ نہیں تھا جو انہوں نے کیا۔ وہ وقتِ عمل اور عاشورا کی تشخیص نہیں دے سکے۔ کام کو اپنے وقت پر انجام نہیں دیا۔ وہ کام جو توّابین نے عاشورہ کے کچھ عرصہ بعد انجام دیا، جب حضرت مسلم کوفہ آئے تھے جن کرتے تو، صورتحال بدل جاتی۔ واقعات کسی اور سمت بڑھ سکتے تھے۔ وقت کو پہچاننا اور ضرورت کے لمحے میں کام انجام دینا بہت اہم ہے۔