محبت اہل بیتؑ ہی محور اتحاد ہے
محبت اہلبیت علیہم السلام ایک ایسا طاقتور عامل ہے جو مسلمانوں کو آپس میں اتحاد اور یکجہتی کی لڑی میں پرو دیتا ہے۔ ذیل میں قائد شہید علاّمہ عارف حسین الحسینی کے خطاب کا اقتباس پیش خدمت ہے۔ میں اپنے شیعہ بھائیوں کی خدمت میں عرض کروں گا، ہمیں علم ہے کہ آپ کی اہل بیت کے ساتھ کتنی محبت ہے۔ آپ کس قدر عزاداری سید مظلوم علیہ السلام کے عاشق ہیں۔لیکن اگر آپ کے دل میں محبت اہل بیت ہے اور عزاداری سید الشہدا عزیز ہے کہ یقیناً عزیز ہے، تو ایک دوسرے کے خلاف کیچڑ اچھالنا اور ایک دوسرے کے خلاف باتیں کرنا، محاذ آرائی چھوڑ دو ، بخدا! اس سے عزاداری کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ اہلبیت بھی ناراحت ہوتے ہیں۔
اہل بیتؑ، عزاداری اور اتحاد بین المومنین
اگر ہمیں عزاداری عزیز ہے تو تو ہمیں متحد ہونا چاہیے۔ ہمیں صرف اور صرف اسلام و قرآن و اہلبیت کے نام پر متحد ہونا چاہیے۔ آج اتحاد و اتفاق کی ضرورت ہے۔ جب دشمنان اسلام نے یہ احساس کیا کہ اسلام اور مکتب اہلبیت کے شاگرد سے انہیں خطرہ ہوسکتا ہے تو انہوں نے آپ کے خلاف قدم اٹھایا۔ ہم کیوں اتحاد کو خراب کرتے ہیں؟
اہل بیتؑ، محور اتحاد!
ہمیں صرف اور صرف اسلام و قرآن و اہلبیت کے نام پر متحد ہونا چاہیے۔ آج اتحاد و اتفاق کی ضرورت ہے۔ جب دشمنان اسلام نے یہ احساس کیا کہ اسلام اور مکتب اہلبیت کے شاگرد سے انہیں خطرہ ہوسکتا ہے تو انہوں نے آپ کے خلاف قدم اٹھایا۔
ایک ہدف اور مختلف مورچے
میں یہ بار بار کہتا ہوں کہ بخدا! صرف مورچے مختلف ہیں۔ عالم ہو، خطیب ہو، ذاکر ہو،پیش نماز ہو یا ملنگ ہو سب کے سب قرآن و اہلبیت کے سپاہی ہیں لیکن کسی کا مورچہ منبر ہے، کسی کا محراب ہے، کسی کا مورچہ مدرسہ ہے، کسی کا مورچہ امامباڑہ ہے،کوئی قلم کے ذریعے، کوئی زبان کے ذریعے،سب کے سب ایک مقصد کے لیے کام کر رہے ہیں۔ جب سب کا مقصد ایک ایک ہے تو پھر ااختلاف کس بات کا؟ دیکھیں برادر عزیز! اگر کسی سے ہم کوئی بات سن لیں تو تو ہمیں اس سے درگزر کرنا چاہیے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو ہمیں آگے نہیں بڑھانا چاہیے۔ ہمیں وسیع مسائل کو مدنظر رکنا چاہیے۔
مومنین کا مشترکہ ہدف
عالم ہو، خطیب ہو، ذاکر ہو،پیش نماز ہو یا ملنگ ہو سب کے سب قرآن و اہلبیت کے سپاہی ہیں لیکن کسی کا مورچہ منبر ہے، کسی کا محراب ہے، کسی کا مورچہ مدرسہ ہے، کسی کا مورچہ امامباڑہ ہے، سب کے سب ایک مقصد کے لیے کام کر رہے ہیں۔ جب سب کا مقصد ایک ایک ہے تو پھر ااختلاف کس بات کا؟ چھوٹی چھوٹی باتوں کو ہمیں آگے نہیں بڑھانا چاہیے۔ ہمیں وسیع مسائل کو مدنظر رکنا چاہیے۔
کتاب اسلوب سیاست(ص 83. (84سے اقتباس