متوکل عباسی کی محفل اور امام علی نقیؑ کے اشعار! از شھید مطہری

بلند عمارتوں سے قبر کا سفر!

روایت ہے کہ متوکل کی طرف سے مجبور کئے جانے پہ امام علی نقی(ع)نے اشعار پڑھنا شروع کئے کہ جنکا مضمون یہ ہے:انہوں نے بلند عمارتوں کو اپنا ٹھکانہ بنالیا،اور مسلح لوگ ہمیشہ انکے گرد رہتے اور انکی حفاظت کرتے لیکن ان میں سے کوئی بھی نہ موت کو نہ روک سکا اور نہ دنیا کی بے ثباتی سے بچا سکا۔اور آخر کار ان ناقابل تسخیر عمارتوں اور مضبوط قلعوں سے قبر کی گہرائیوں میں اتارے گئے اور کس بدقسمتی کے ساتھ قبر میں اتارے گئے!

 

اھل قبور کو منادی کی صدا!

امام علی نقیؑ سے روایت ہے کہ موت کے بعد جب بلند جب لوگ قبروں میں اتارے گئے تو منادی نے صدا دی اور کہا:کہاں گئیں وہ زینتیں،وہ تخت و تاج،وہ جاہ و جلال؟کہاں گئے وہ نعمتوں میں پلے بڑھے چہرے جو اپنے آپ کو ہمیشہ پردوں کے پیچھے لوگوں کی نظروں سے چھپا کہ رکھتے تھے؟

 

دنیا رسواء کرنے والی چیز ہے!

دنیا پرست لوگوں کے بارے میں امام علی نقیؑ سے روایت ہے کہ قبر نے انکی عاقبت کو رسوا کردیا۔وہ نعمتوں میں پروان چڑھے چہرے آخرکار(قبر میں)کیڑے مکوڑوں کی آماجگاہ بن گئے جو ان پہ چلتے ہیں۔ایک عرصے تک دنیا میں عیش کرتے رہے،غرض یہ کہ سب کچھ نگل گئے،لیکن آج وہی ہر چیز کھانے والے کیڑے مکوڑوں کی غذا بن گئے۔

 

نورِحقیقت کا کرشمہ!

بزم متوکل میں قبر کے حال کے بارے میں پڑھے گئے اشعار کو امام علی نقیؑ نے ایک ایک خاص گونج کے ساتھ ختم کیا جو خود متوکل سمیت حاضرین محفل کی روح کی گہرائیوں میں سرایت کرگئے۔شرابیوں کے نشے ٹوٹ گئے،متوکل عباسی نے شراب کا پیالہ زمین پہ پھینک دیا اور اسکی آنکھوں سے بارش کی مانند اشک جاری ہوگئے۔اس انداز میں محفل برخاست ہوئی اور نور حقیقت نے چاہے تھوڑی دیر کے لئے ہی صحیح غرور و غفلت کے غبار کو قساوت بھرے دلوں سے نکال دیا۔

 

عہد معارف ، شہید مطہری

 

حوالہ: کتاب سچی کہانیاں

متعلقہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *