فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی فضیلت کے چند جلوے! از رہبر انقلاب
#افکار_رہبر | قیام حسینی ع اور بیداری
سيد الشہداؑ نے ايک ايسا کام انجام ديا کہ طاغوتي حکومتوں کے دور ميں کچھ ايسے افراد پيدا ہوئے کہ جو اوائلِ اسلام سے زماني فاصلہ رکھنے کے با وجود امام حسن مجتبيٰ کے دور ميں ظلم و ستم کي حکومت سے مقابلے کرنے والے افرادسے زيادہ عزم و ارادے کے مالک تھے۔ صحيح ہے کہ يہ قيام اور تحريکيں سرکوب کردي گئيں ليکن بہرحال اِن لوگوں نے ظالمانِ وقت کے خلاف قيام کيا۔
قیام امام حسین ع اور بیداری
سيد الشہداؑ نے ايک ايسا کام انجام ديا کہ طاغوتي حکومتوں کے دور ميں کچھ ايسے افراد پيدا ہوئے کہ جو اوائلِ اسلام سے زماني فاصلہ رکھنے کے با وجود امام حسن مجتبيٰ کے دور ميں ظلم و ستم کي حکومت سے مقابلے کرنے والے افرادسے زيادہ عزم و ارادے کے مالک تھے۔ صحيح ہے کہ يہ قيام اور تحريکيں سرکوب کردي گئيں ليکن بہرحال اِن لوگوں نے ظالمانِ وقت کے خلاف قيام کيا۔
واقعہ کربلا اور بیداری
اہل مدينہ کے قيام سے جو ’’واقعہ حرّہ‘‘ کے نام سے معروف ہے ، شروع کيجئے اور بعد کے واقعات اور توابين و مختار کے قيام تک اور وہاں سے بني اميہ اور بني عباس کے زمانے تک مختلف قسم کے قيام مسلسل وجود ميں آتے رہے ، اِن تمام قياموں کا باني کون تھا؟ حسين ابن علي !
قیام حسینی اور احساس مسئولیت
اگر سيد الشہدا قيام نہيں فر ماتے تومعاشرے کي سستي و کاہلي اور ذمہ داريوں سے فرارکي عادت، ظلم ستيزي اور ذمہ داري کو قبول کرنے ميں تبديل نہيں ہوتي۔ کيوں کہتے ہيں کہ اُس معاشرے ميں ذمہ داريوں کو قبول کرنے کي حس مرچکي تھي؟ اُس کي دليل يہ ہے کہ امام حسين ، اسلام کي عظيم اور بزرگ ہستيوں کے مرکز ’’شہر مدينہ‘‘ سے مکہ تشريف لے گئے؛ ’’ابن عباس ‘‘ ، ’’پسر زبير ‘‘،’’ ابن عمر ‘‘ اور صدر اسلام کے خلفا کے بيٹے سب ہي مدينے ميں موجود تھے ليکن کوئي ايک بھي اِس بات کيلئے تيار نہيں ہوا کہ اُس خوني اور تاريخي قيام ميں امام حسين کي مدد کرے۔
عظیم درس
پس قيام امام حسين کے شروع سے قبل عالم اسلام کے خاص الخاص افراد اور بزرگ ہستياں بھي ايک قدم اٹھانے کيلئے تيار نہيں تھيں ليکن امام حسين کے قيام و تحريک کي ابتداء کے بعد يہ روح زندہ ہوگئي۔ يہ وہ عظيم درس ہے کہ جو واقعہ کربلا ميں دوسرے درسوں کے ساتھ موجود ہے اور يہ ہے اِس واقعہ کي عظمت!
يہ جو کہا گيا ہے کہ ’’اَلمَدعُوّ لِشَھَادَتِہِ قَبلَ اِستِھلَالِہِ وَوِلَادَتِہ‘‘ِ يا اُن کي ولادت باسعادت سے قبل ’’بَکَتہُ السَّمَآئُ وَ مَن فِيھَا وَالاَرضُ وَمَن عَلَيھَا‘‘ کہا گيا ہے اور لوگوں کو امام حسين کے اِس عظيم غم اور عزا اور اُس کے خاص احترام کي طرف متوجہ کيا گيا ہے اور اِن دعاوں اور زيارت کي تعبيرات ميں اُن پر گريہ کيا گيا ہے تو اِن سب کي وجہ يہي ہے ۔
کتاب: امام حسین ع دلربائے قلوب، رہبر معظم سید علی خامنہ ای سے اقتباس