قم کے عوام سے شہید قاسم سلیمانی کی شخصیت پر گفتگو
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے بدھ 9 جنوری 2020 کو قم کے ہزاروں لوگوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے گزشتہ شب عراق میں امریکہ کی دو چھاونیوں پر ایران کے میزائل حملوں کو ایک طمانچے سے تعبیر کیا اور زور دیکر کہا کہ اصلی مقابلہ یہ ہونا چاہئے کہ علاقے میں امریکہ کی فتنہ انگیز اور تباہ کن موجودگی کو ختم کیا جائے۔
آپ نے فرمایا کہ الحاج قاسم سلیمانی کی شہادت اور روحانیت کی ایک عظیم برکت وہ قیامت خیز فضا تھی جو ایران اور عراق کے شہروں میں جلوس جنازہ میں نظر آئی۔
رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب حسب ذیل ہے۔۔۔
بسم اللہ الرحمن الرحمن الرحیم
الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.
بھائيو اور بہنو! عزیز اور قابل فخر اہل قم! آپ کی خدمت میں خیر مقدم عرض کرتا ہوں۔ یہ پروگرام چالیس اکتالیس سال سے بڑے شاندار طریقے سے ہر سال منعقد ہو رہا ہے۔ انیس دی (نو جنوری) کو اس انتہائي اہم اور تاریخ ساز واقعے کی مناسبت سے پورے ملک کے عوام کی نظریں قم کے لوگوں پر ہوتی ہیں۔ کچھ باتیں میں نو جنوری کے مسئلے اور قم کے تاریخی واقعے کے بارے میں عرض کروں گا اور کچھ باتیں آج کل کے شہید عزیز، شہید سلیمانی کے بارے میں بھی عرض کروں گا۔
9 جنوری کے مسئلے کے بارے میں عرض کروں کہ ہمیں اس کے بارے میں غور کرنا چاہیے اور اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ یہاں تشریف لانے والے آپ اکثر بھائي بہن، اس وقت نہیں تھے، آپ نے وہ دن نہیں دیکھا ہے لیکن اس دن کی یاد زندہ ہے، ہمیں اس زندہ یاد سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ ماضی کو ہمیشہ مستقبل کی راہ کا رہنما اور مشعل ہونا چاہیے۔ 9 جنوری کا واقعہ کچھ یوں تھا کہ اسلامی انقلاب کے عظیم الشان قائد کی مرجعیت کے دفاع کے لیے، جو اس وقت ایران میں نہیں تھے، قم کے لوگ گھروں سے باہر نکل کر طاغوتی حکومت کے مسلح اور بے رحم فوجیوں کے سامنے سینہ سپر ہو گئے۔ عوام کے پاس کچھ بھی نہیں تھا اور وہ پوری طرح خالی ہاتھ تھے۔ وہ کیا چیز تھی جو انھیں میدان میں لے آئي تھی؟ ایمان اور دینی غیرت؛ دیکھیے یہ دونوں ‘کی ورڈز’ (keywords) ہیں؛ ایمان اور دینی غیرت۔ جب وہ لوگ، جو قم کے عوام تھے، سڑکوں پر نکل آئے اور انھیں پولیس کا سامنا ہوا، فوجیوں کا سامنا ہوا اور ان میں سے کچھ لوگ شہید اور زخمی ہوئے تو طاغوتی عناصر نے اپنے زعم باطل میں یہ سوچا کہ اس نے انھیں کچل دیا ہے۔ قم میں قیام کرنے والے لوگ بھی اور دوسرے لوگ بھی یہ نہیں سوچ رہے تھے کہ ان کا یہی قدم، نہ صرف ملک میں بلکہ دنیا میں کتنی بڑی تبدیلی کا سر آغاز بن جائے گا، کیا نہیں بنا؟ یہی اقدام، جو اس دن عوام کی جانب سے ایمان اور دینی غیرت کی وجہ سے انجام دیا گیا، خداوند عالم نے اسے برکت عطا کی، یہ حرکت جاری رہی، مسلسل، شہداء کے چہلم نے لوگوں کو میدان کے وسط میں پہنچا دیا اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی قیادت کی۔ یہ حرکت، اگلے سال یعنی بہمن سن تیرہ سو ستاون مطابق فروری سن انیس سو اناسی کی عظیم تحریک پر منتج ہوئي۔ قم کے کچھ بااخلاص لوگوں کے اسی اقدام نے ایک عظیم انقلاب کی بنیاد رکھ دی۔ بہت سارے اسباب ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ تحریک کا آغاز، ایمان اور دینی غیرت کے سبب ایک عوامی اقدام تھا، یہ بات ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔ ہم ایمان اور دینی غیرت کی برکت سے بڑے بڑے کام کر سکتے ہیں، جیسا کہ (شہید سلیمانی اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کے) اس مسئلے میں بہت بڑا کام ہوا، بہت بڑا واقعہ ہوا، ایسا انقلاب وجود میں آيا جس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا، متغیر کر دیا اور تاریخ، ملک کی تاریخ، خطے کی تاریخ اور شاید دنیا کی تاریخ کے دھارے کو موڑ دیا جس کے بارے میں لوگ بعد میں فیصلہ کریں گے۔ خداوند عالم کی مدد کو اس نظر سے دیکھنا چاہیے، اللہ کی ہدایت اور اللہ کے دست قدرت کو ہمیں اپنی زندگی کے تمام واقعات میں اس طرح سے دیکھنا چاہیے۔ اس دن لوگوں کے ہاتھ خالی تھے لیکن بحمد اللہ آج ہمارے ہاتھ خالی نہیں ہیں بلکہ بھرے ہوئے ہیں۔ آج بحمد اللہ ایرانی قوم دنیا کے منہ زوروں کے مقابلے میں لیس ہے، لیکن بھروسہ صرف فوجی وسائل پر نہیں ہے، فوجی وسائل کا فائدہ اس وقت ہوتا ہے جب اسے ایمان اور دینی غیرت کا سہارا حاصل ہو۔ تبھی فوجی وسیلے کا اثر ہوتا ہے، تبھی فوجی وسیلہ راستہ کھولتا ہے۔ یہ بات آج ہمیں دشمن کے وسیع محاذ کے مقابلے میں یاد رکھنا چاہیے۔ یہ جو خداوند عالم فرماتا ہے کہ “کم من فئۃ قلیلۃ غلبت فئۃ کثیرۃ باذن اللہ” (1) ، اس کا مصداق یہی ہے۔ کبھی ایک چھوٹا سا گروہ، ایک بہت ہی بڑے اور وسیع محاذ پر اللہ کی طاقت کے ذریعے فتح حاصل کر لیتا ہے، اس وقت جب اسے ایمان اور دینی غیرت کا سہارا حاصل ہو۔
میرے عزیزو! اس سبق کو فراموش نہ ہونے دیجیے۔ چاہے ملک کے تشہیراتی عہدیدار ہوں، چاہے قم اور دیگر علاقوں کے علمائے کرام ہوں، چاہے ثقافتی شعبے میں کام کرنے والے سرگرم نوجوان ہوں یا پھر دوسرے لوگ ہوں، ہماری آنکھوں کے سامنے رونما ہونے والے اس عدیم المثال سبق کو طاق نسیان کی زینت نہ بننے دیجیے۔ ایمان اور دینی غیرت پر مبنی مظلومانہ آغاز کا درس، اس طرح کی مہم کو خداوند عالم کی جانب سے عطا ہونے والی برکت اور اس طرح کے عظیم واقعات کو یکے بعد دیگرے وجود عطا کرنا۔ خداوند متعال نے قرآن مجید میں جگہ جگہ اس نکتے کو پچھلی امتوں کی مناسبت سے دہرایا ہے کہ غفلت تمھیں آ نہ لے۔ وہ فرماتا ہے: “ولا یکونوا کالذین اوتوا الکتاب من قبل فطال علیھم الامد فقست قلوبھم”(2) بنی اسرائيل کے لوگوں کو کبھی اتنی زیادہ معنوی طاقت حاصل ہو گئی تھی کہ اگرچہ ان کے مرد، عورتیں اور بچے فرعون کی ایذا رسانی کا شکار تھے لیکن انھوں نے فرعون کو مغلوب کر دیا۔ انھوں نے استقامت کا مظاہرہ کیا، یہاں تک کہ خداوند متعال نے ان کے لیے راستہ کھول دیا اور فرعون اور اس کے افراد کو غرق کر کے انھیں اتنی بڑی فتح عطا کی۔ تھوڑی ہی مدت کے بعد بنی اسرائيل کے یہی لوگ تھے کہ فطال علیھم الامد فقست قلوبھم، کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ وہ اپنی پہلی حالت سے باہر نکل آئے، ان کے دل سخت ہو گئے، بھاری ہو گئے، اللہ پر ان کا وہ توکل، وہ اعتماد، وہ خدا کی راہ میں حرکت، وہ صبر اور وہ استقامت سب ختم ہو گئے، نتیجہ یہ ہوا کہ “وضربت علیھم الذلۃ و المسکنۃ و باؤوا بغضب من اللہ”(3) یہ صرف ایک آیت ہے، متعدد دیگر آیتیں بھی ہیں۔ حضرت موسی علیہ السلام نے بنی اسرائیل سے کہا: “افطال علیکم العھد”؛ (4) تم لوگ کل تک فرعون کے دباؤ میں تھے، کیا وہ وقت گزرے ہوئے زیادہ مدت ہو گئی ہے کہ تم اسے بھول گئے ہو اور کہہ رہے ہو کہ “اجعل لنا الھا کما لھم آلھۃ؟”(5) یہ درس ہے۔ یہ وہ چیز ہے جسے میں بار بار دوہراتا ہوں۔ بحمد اللہ آج ملک میں مومن اور دین کی پابندی کرنے والے نوجوانوں کی تعداد اور معیار، اسلامی انقلاب کے آغاز سے کہیں زیادہ اور کہیں بہتر ہے۔ آج ایسا ہے، ہم ناخوش نہیں ہیں لیکن ہوشیار رہیے کہ راستہ صحیح طریقے سے طے ہو؛ ہم اس عظیم قرآنی، نبوی اور الہی سبق کو کہ اللہ تعالی مدد کرتا ہے، “و من یتوکل علی اللہ فھو حسبہ”،(6) فراموش نہ کریں اور ہمیشہ یاد رکھیں۔
اب کچھ باتیں اپنے اس عزیز شہید کے بارے میں، میں دو تین باتیں الحاج قاسم سلیمانی کے بارے میں عرض کرنا چاہتا ہوں جن میں سے ایک خود ان کی شخصیت کے بارے میں ہے۔ آج کل اس عظیم شخصیت کے بارے میں، ہمارے اس اچھے، عزیز، شجاع اور خوش نصیب دوست کے بارے میں، جن کا ملکوت اعلی سے وصال ہو گیا، کافی باتیں کی گئي ہیں اور ان کی خصوصیات کے بارے میں صحیح باتیں کہی گئی ہیں، میں بھی کچھ جملے عرض کرنا چاہتا ہوں جو میرے خیال میں اہم ہیں:
ایک تو یہ کہ شہید سلیمانی بہادر بھی تھے اور مدبر بھی تھے۔ صرف بہادری نہیں تھی، بعض لوگوں میں بہادری ہے لیکن اس شجاعت کو استعمال کرنے کے لیے ضروری عقل و تدبیر نہیں ہے۔ بعض لوگ مدبر ہیں لیکن عمل نہیں کر سکتے، قدم نہیں اٹھا سکتے، ان میں وہ کام کرنے کی ہمت نہیں ہے، جگر نہیں ہے۔ ہمارے اس شہید میں دل و جگر بھی تھا اور وہ ہچکچائے بغیر خطرے کے منہ میں چلے جاتے تھے، صرف ان دنوں کے ان واقعات میں نہیں بلکہ مقدس دفاع کے دوران بھی جب وہ ‘ثار اللہ ڈویژن’ کے کمانڈر تھے تب بھی ایسے ہی تھے۔ وہ بھی اور ان کی ڈویژن بھی۔ اسی کے ساتھ وہ مدبر بھی تھے، غور کرتے تھے، سوچتے تھے اور تدبیر کیا کرتے تھے، ان کے پاس اپنے کاموں کی منطق اور دلیل ہوتی تھی۔ یہ جڑواں شجاعت اور تدبیر صرف فوجی میدان میں نہیں تھی، میدان سیاست میں بھی ایسا ہی تھا۔ میں سیاسی میدان میں سرگرم دوستوں سے بارہا یہ بات کہا کرتا تھا۔ ان کے رویے کو اور ان کے کام کو دیکھا کرتا تھا۔ سیاست کے میدان میں بھی وہ شجاع بھی تھے اور مدبر بھی تھے۔ ان کی باتیں، اثر انگیز ہوتی تھیں، اطمینان بخش ہوتی تھیں، متاثر کن ہوتی تھیں اور ان سب سے بڑھ کر ان کا اخلاص تھا، وہ مخلص انسان تھے۔ اپنی شجاعت اور تدبیر کو خدا کے لیے استعمال کرتے تھے۔ ان میں دکھاوے اور ریاکاری جیسی چیزیں نہیں تھیں۔ اخلاص بہت اہم ہے۔ ہمیں اپنے اندر اخلاص پیدا کرنے کی مشق کرنی چاہیے۔
ان کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ وہ فوجی میدان میں ید طولی رکھنے والے ایک شجاع کمانڈر بھی تھے اور اسی کے ساتھ بڑی شدت کے ساتھ شرعی حدود کی بھی پابندی کرتے تھے۔ میدان جنگ میں کبھی کبھی لوگ، حدود الہی کو بھول جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ان باتوں کا وقت نہیں ہے۔ لیکن وہ ایسے نہیں تھے، وہ شرعی حدود کی شدت سے پابندی کرتے تھے۔ جہاں ہتھیار استعمال نہیں کرنا چاہیے، وہاں ہتھیار استعمال نہیں کرتے تھے۔ وہ اس کا بہت زیادہ خیال رکھتے تھے کہ کسی پر ظلم نہ ہونے پائے۔ جس طرح وہ احتیاط کیا کرتے تھے، اس طرح کی احتیاط کو فوجی میدان میں بہت سے لوگ ضروری نہیں سمجھتے لیکن وہ احتیاط سے کام لیتے تھے۔ وہ خود خطرے کے منہ میں چلے جاتے تھے لیکن دوسروں کی جان کی ممکنہ حد تک حفاظت کرتے تھے۔ وہ اپنے قریبیوں، اپنے اطراف والوں، اپنے سپاہیوں اور دیگر اقوام کے اپنے ساتھیوں کی جان کی حفاظت کا بہت خیال رکھتے تھے۔
ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ ملک کے داخلی مسائل میں، کیونکہ یہ باتیں، جو ابھی بیان کی گئيں، عام طور پر ان کی علاقائی جدوجہد اور علاقائي سرگرمیوں سے متعلق تھیں، وہ کسی بھی طرح کی دھڑے بندی اور پارٹی بازی میں شامل نہیں تھے لیکن شدت کے ساتھ انقلابی تھے۔ انقلاب اور انقلابیت ان کی حتمی ریڈ لائن تھی۔ کچھ لوگ اس بات کو غیر اہم بنانے کی کوشش نہ کریں، یہ ان کی حقیقت ہے، وہ انقلاب میں پوری طرح سے جذب تھے۔ انقلابی ہونا ان کی ریڈ لائن تھی۔ وہ مختلف جماعتوں، مختلف ناموں اور مختلف دھڑوں کی تقسیم بندی والے انسان نہیں تھے لیکن انقلاب کی بات الگ ہے، وہ پوری طرح سے انقلاب کے پابند تھے، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے مبارک اور نورانی راستے کے پابند تھے۔
ان کی شجاعت اور تدبیر کا ایک نمونہ، جسے ان کے دشمن خوب جانتے ہیں، شاید ان کے بعض دوست نہ جانتے ہوں، یہ ہے کہ انھوں نے علاقائي اقوام کی مدد سے یا علاقائی اقوام کی انھوں نے جو مدد کی اس کے ذریعے مغربی ایشیا کے خطے میں امریکا کے تمام ناجائز منصوبوں کو ناکام بنا دیا گیا۔ یہ انسان، پیسوں، امریکا کی وسیع پروپیگنڈا مشینری، امریکی سفارتکاری کی طاقت اور دنیا کے بعض سیاستدانوں خاص طور پر کمزور ملکوں پر امریکیوں کی منہ زوری سے تیار کی گئي تمام سازشوں کے سامنے کھڑے ہو گیا۔ انھوں نے مغربی ایشیا کے خطے میں ان سازشوں کو نقش بر آب کر دیا۔
فلسطین کے سلسلے میں امریکیوں کا منصوبہ اور چال یہ تھی کہ مسئلۂ فلسطین کو طاق نسیاں کی زینت بنا دیا جائے، فلسطینیوں کو کمزوری کی حالت میں باقی رکھا جائے تاکہ وہ مقابلے کی ہمت نہ دکھا سکیں۔ اس مرد نے فلسطینیوں کو مضبوط بنا دیا۔ انھوں نے وہ کام کیا کہ غزہ پٹی جیسا بالشت بھر علاقہ، طمطراق کے دعوے کرنے والی صیہونی حکومت کے سامنے کھڑا ہو گیا اور اس نے وہ کام کیا اور وہ مزہ چکھایا کہ اڑتالیس گھنٹے میں ہی صیہونی کہنے لگے کہ جناب آئيے، جنگ بندی کرتے ہیں! یہ الحاج قاسم سلیمانی نے کیا ہے۔ انھوں نے فلسطینیوں کے ہاتھ مضبوط بنا دیے۔ ایسا کام کیا کہ وہ کھڑے ہو سکیں، استقامت دکھا سکیں۔ یہ وہ چیز ہے جو ہمارے فلسطینی بھائيوں نے بار بار مجھ سے کہی ہے۔ میں تو جانتا ہی تھا لیکن انھوں نے بھی آکر ہمارے سامنے اس کی گواہی دی۔ ان فلسطینی رہنماؤں نے اپنے متعدد دوروں میں، سبھی نے یہ بات کہی ہے۔ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ انھی رہنماؤں کے ساتھ، جو ان کے کام سے متعلق تھے، ہماری نشست ہوتی تھی، چاہے وہ رسمی نشست ہو ہو یا عام نشست ہو، مرحوم سلیمانی ایک گوشے میں اس طرح بیٹھ جاتے تھے کہ دکھائي نہیں دیتے تھے۔ ان نشستوں میں کبھی میں کچھ جاننا چاہتا یا ان کی توثیق چاہتا تو انھیں تلاش کرنا پڑتا تھا، وہ اپنے آپ کو آگے آگے نہیں رکھتے تھے، دکھاوا نہیں کرتے تھے۔
عراق میں، شام میں اور لبنان میں امریکا کی چالیں، اس شہید عزیز کی مدد سے اور ان کی سرگرمیوں سے ناکام ہوئیں۔ امریکی، عراق کو ایران کی سابق طاغوتی حکومت یعنی پہلوی حکومت یا آج کے سعودی عرب کی شکل میں پسند کرتے ہیں۔ تیل سے لبریز ایک جگہ پوری طرح ان کے کنٹرول میں ہو اور وہ جو چاہیں کریں یا اس شخص کے بقول دودھ دینے والی گائے ہو۔ یہ عراق کو اس طرح چاہتے ہیں۔ عراق کے مومن افراد، شجاع افراد، عراقی نوجوان اور عراق کی مرجعیت ان باتوں کے سامنے ڈٹ گئي اور الحاج سلیمانی رضوان اللہ تعالی علیہ نے اس پورے رضاکار محاذ کو ایک سرگرم مشیر کی طرح مدد بہم پہنچائي اور ایک مضبوط سہارے کی حیثیت سے وہاں پہنچے۔ اسی طرح کا معاملہ شام کے سلسلے میں بھی ہے، لبنان کے سلسلے میں بھی ہے۔ لبنان کے سلسلے میں امریکی چاہتے ہیں کہ لبنان کو، اس کی خودمختاری کے سب سے اہم عنصر یعنی استقامتی فورس اور حزب اللہ سے محروم کر دیں تاکہ نہتا لبنان، اسرائیل کے سامنے ہو اور وہ آ کر بیروت تک پر قبضہ کر لے، جیسا کہ وہ اس سے پہلے بیروت تک پہنچ گیا تھا۔ بحمد اللہ حزب اللہ روز بروز زیادہ طاقتور ہوتی گئي۔ آج لبنان کا ہاتھ بھی اور لبنان کی آنکھ بھی حزب اللہ ہے۔ اس صورتحال کے لیے ہمارے عزیز شہید کا کردار ایک نمایاں کردار ہے؛ تدبیر و شجاعت، شجاع مجاہد، ہمدرد بھائی۔
بحمد اللہ اقوام بیدار ہیں۔ آج قومیں بیدار ہیں لیکن اس شہید عزیز اور ان کے علاقائي دوستوں کا کردار بے نظیر تھا جیسے کہ یہی شہید ابو مہدی رضوان اللہ تعالی علیہ، ایک نورانی مرد، مومن مرد، شجاع مرد کہ انسان جب انھیں دیکھتا تھا تو ان کا چہرہ “و بیض وجھی بنورک”(7) کا مصداق تھا۔ ابو مہدی ایسے تھے، ان کا چہرہ نورانی، معنوی اور خدائي نور کا عکاس تھا۔ شہید سلیمانی نے اس طرح کے مومن، شجاع اور نورانی انسانوں کے ساتھ مل کر بڑے بڑے کام انجام دینے میں کامیابی حاصل کی۔ یہ اس شہید کے بارے میں کچھ مختصر نکات تھے حالانکہ اپنے اس عزیز شہید کے بارے میں اس سے کہیں زیادہ بات کی جا سکتی ہے لیکن فی الحال اتنا ہی کافی ہے۔
شہید سلیمانی کے بارے میں دوسرا باب اس عظیم شہادت کی برکتوں سے متعلق ہے۔ یہ عزیز شہید جب بھی ہمیں کوئی رپورٹ دیتے تھے، خواہ وہ تحریری رپورٹ ہو یا زبانی رپورٹ ہو، اپنی کارکردگی کے بارے میں جو رپورٹ دیتے تھے اس پر میں دل و زبان سے ان کی ہمیشہ تعریف کرتا تھا۔ لیکن آج وہ جن چیزوں کا سرچشمہ بن گئے ہیں، انھوں نے ملک بلکہ علاقے کے لئے جو حالات پیدا کر دئے ان کی وجہ سے میں ان کی تعظیم کرتا ہوں (8)۔ بہت بڑا کام انجام پایا، ایک قیامت برپا ہو گئی۔ ان کی روحانیت نے ان کی شہادت کو اس قدر نمایاں کر دیا، ملک کے اندر ان کو جس انداز سے الوداع کہا گيا، عراق کے اندر جو الوداع کہا گیا، کاظمین میں، بغداد میں، نجف میں، کربلا میں ان ٹکڑے ٹکڑے (9) جنازوں کی جس انداز سے تشییع کی گئی اس پر میں دل کی گہرائیوں سے ان کی پاکیزہ روح کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
ان کی شہادت نے ساری دنیا پر ثابت کر دیا کہ ہمارے ملک میں انقلاب ہنوز زندہ ہے۔ کچھ لوگ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ایران میں انقلاب اب ختم ہو چکا ہے، مر چکا ہے، اس کا قصہ تمام ہو چکا ہے۔ البتہ کچھ لوگ یہ کوشش کر رہے ہیں کہ ایسا ہو جائے، لیکن ان کی شہادت نے ثابت کر دیا کہ انقلاب زندہ ہے۔ آپ نے دیکھا کہ تہران میں کیا فضا بنی؟ آپ نے دیگر شہروں میں دیکھا کہ کیا ماحول پیدا ہوا؟ البتہ مجھے بہت گہرا دکھ ہے اس تلخ سانحے کا جو کرمان میں پیش آیا اور جس کے نتیجے میں ہمارے کچھ عزیز ہم وطنوں کی جانیں گئیں، میں ان کے اہل خانہ کو تعزیت پیش کرتا ہوں اور میری دعا ہے کہ ان شاء اللہ ان جاں بحق ہونے والے افراد کی پاکیزہ ارواح بھی شہید سلیمانی کے ساتھ محشور ہوں (10)۔ شہید سلیمانی نے غبار آلود آنکھوں کو اپنی شہادت سے صاف کر دیا۔ دشمن ملت ایران کی عظمت کے سامنے سر جھکانے پر مجبور ہوئے۔ ممکن ہے کہ وہ اسے ظاہر نہ کریں لیکن ان کے پاس کوئی اور چارہ نہیں ہے۔ جو دشمن یہ کوشش کر رہا ہے کہ اس عظیم المرتبت مجاہد کو، دہشت گردی سے بر سر پیکار اس عظیم کمانڈر کو ایک دہشت گرد کے طور پر متعارف کرائے، ظاہر ہے کہ انصاف سے بے بہرہ امریکیوں، جھوٹے امریکیوں، مہمل بیانی کرنے والے امریکیوں کی باتوں کی کوئی وقعت نہیں ہے، تاہم وہ اس انداز سے کام کر رہے تھے، ملت ایران نے ان کے منہ پر طمانچہ مارا۔
ایک اہم اور قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ اس وقت ہمارا فریضہ کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک بڑا واقعہ رونما ہوا ہے۔ انتقام وغیرہ کی جہاں تک بات ہے تو یہ ایک الگ بحث ہے۔ گزشتہ شب انھیں ایک طمانچہ رسید کیا گیا ہے (11)۔ یہ ایک الگ مسئلہ ہے۔ مقابلے میں جو چیز اہم ہے، کیونکہ اس شکل میں فوجی اقدامات کافی نہیں ہیں، اہم چیز یہ ہے کہ علاقے میں امریکہ کی فتنہ انگیز موجودگی ختم ہونا چاہئے، تمام ہونا چاہئے۔ وہ اس علاقے میں جنگ لائے، اختلاف لیکر آئے، فتنہ و فساد لیکر آئے، تباہی لیکر آئے، انفراسٹرکچر کی بربادی لیکر آئے۔ البتہ انھوں نے دنیا میں جہاں بھی قدم رکھا ہے یہی رویہ اپنایا ہے۔ تاہم اس وقت ہماری نگاہ کے سامنے ہمارا اپنا علاقہ ہے۔ ان کا اصرار ہے کہ وطن عزیز ایران اور اسلامی جمہوریہ میں بھی یہی فتنہ اور یہی تباہی پھیلائیں۔ وہ اس کی رٹ لگائے رہتے ہیں۔ یہ مذاکرات کی باتیں اور میز پر بیٹھنے کی باتیں یہ سب مداخلت اور دراندازی کا مقدمہ ہے۔ اس کا سد باب ہونا چاہئے۔ یہ علاقہ یہاں کے ممالک میں امریکہ کی موجودگی کو برداشت نہیں کر سکتا۔ علاقے کی قومیں یہ برداشت نہیں کریں گی۔ قوموں کے ذریعے منتخب ہونے والی حکومتیں قبول نہیں کریں گی۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ یہ ویسے ایک الگ اہم بحث ہے جس کا اپنا الگ مقام ہے۔
عوام الناس کی حیثیت سے، اسلامی جمہوریہ سے تعلق رکھنے والے افراد کی حیثیت سے ہماری جو ذمہ داریاں ہیں ان میں سب سے پہلی چیز ہے دشمن کی شناخت۔ دشمن کی ہمیں شناخت ہونا چاہئے۔ دشمن کی شناخت میں ہرگز غلطی نہ کیجئے۔ یہ نہ کہئے کہ ہم سب کو معلوم ہی ہے! بے شک آپ جانتے ہیں کہ دشمن کون ہے۔ دشمن استکبار ہے، دشمن صیہونیت ہے، دشمن امریکا ہے۔ آپ یہ سب جانتے ہیں لیکن بہت بڑے پیمانے پر کوشش کی جا رہی ہے کہ اس قضیئے کو برعکس شکل میں پیش کیا جائے، لوگوں کی سوچ بدل دی جائے۔ بہت پیچیدہ تشہیراتی روشوں کی مدد سے۔ سب بہت محتاط رہیں۔ دشمن شناسی بہت اہم ہے۔ ایک چیز تو یہ ہے اور اس کے بعد ہے دشمن کے منصوبوں کا علم۔ دشمن کیا کر رہا ہے؟ کیا کرنا چاہتا ہے؟ اس کے بعد دشمن کے منصوبوں سے نمٹنے کی روش کا علم۔ ہمارے عوام کو یہ چیزیں معلوم ہونا چاہئے۔ ہمارا تکیہ عوام پر ہے۔ عوام کی مرضی کے بغیر، عوام کی مدد کے بغیر، عوام کی موافق، مثبت رائے اور ارادے کے بغیر اسلامی جمہوریہ کچھ بھی نہیں ہے۔ اس کا کوئی مفہوم ہی نہیں ہے۔ عوام، دشمن کو بھی پہچانیں، دشمن کے طریقہ کار کو بھی پہچانیں، ان روشوں کا مقابلہ کرنے کے طریقوں کو بھی پہچانیں۔ یہ اہل فکر افراد کا کام ہے۔
خوش قسمتی سے آج ہمارے ملک میں صاحبان فکر و تدبیر کی کمی نہیں ہے۔ عسکری میدان میں بھی، علمی میدان میں بھی، سیاسی میدان میں بھی مدبر، شجاع اور علم و اگاہی سے آراستہ افراد موجود ہیں۔ ان کی باتوں پر توجہ دینا چاہئے۔ جو کام انھیں مناسب نظر آئے اسے ملکی سطح پر اور معاشرے کی سطح پر عملی جامہ پہنایا جانا چاہئے۔ ہمارے یہاں کمی نہیں ہے۔ خوش قسمتی سے مکتب امام خمینی کے تربیت یافتہ افراد روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔ ایک بار امام خمینی نے جنگ کے بارے میں فرمایا تھا کہ اس انقلاب کی سب سے بڑی فتح نوجوانوں کی تربیت، ان نونہالوں کی تربیت ہے۔ ایک موقع پر امام خمینی نے یہ بات کہی تھی اور بالکل بجا فرمایا تھا۔ آپ نے بالکل صحیح فرمایا تھا۔ یہ امام خمینی کی حکمت و بصیرت تھی۔ اتنی ساری فتوحات اور اتنی ساری کامیابیاں اس کے سامنے بہت معمولی ہیں، ممتاز انسانوں کی تربیت بہت بڑی چیز ہے۔ آج خوش قسمتی سے ہمارے پاس اس طرح کے افراد بڑی تعداد میں ہیں۔
ہمارا فرض ہے کہ دشمن کو پہچانیں۔ میں یہ بات پوری قطعیت سے کہہ رہا ہوں؛ دشمن سے مراد ہے امریکہ، صیہونی حکومت اور استکباری نظام۔ استکباری نظام میں صرف امریکا نہیں ہے۔ صرف حکومتیں نہیں ہیں۔ اس میں کچھ کمپنیاں اور غارت گری کرنے والی اور ظالم طاقتیں بھی شامل ہیں جو ہر اس مرکز کی مخالف ہیں جو ظلم و غارت گری کے خلاف آواز اٹھائے۔ دشمن یہ ہیں۔ علاقے کے اندر یا باہر کوئی حکومت اگر کبھی ہمارے خلاف کوئی بیان دے دے یا کچھ کہہ دے تو ہم اسے دشمن نہیں سمجھتے۔ یہ دشمن نہیں ہیں۔ جب تک ان کی طرف سے دشمن کی مدد کے طور پر اور اسلامی جمہوریہ کے خلاف کوئی عملی اقدام انجام نہ دیا جائے تب تک ہم انھیں دشمنوں کے زمرے میں نہیں رکھتے۔ دشمن وہی ہیں۔ دشمن کی شناخت میں غلطی نہیں کرنا چاہئے۔ اگر ہمیں اس کا علم ہو گیا، اگر ہم دشمن کے منصوبوں کا مقابلہ کرنے کا طریقہ بھی سمجھ گئے (تو ہمیں کامیابی ملے گی)۔ دشمن کی سازش یہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو، ہمارے عوام کو گوناگوں میدانوں میں عزم و ارادے کی قوت سے محروم کر دے۔ یہ دشمن کی بنیادی سازش ہے۔ عوام کے ایمان میں شک و شبہ پیدا کرنا، ان کے پختہ عزم میں تزلزل پیدا کرنا۔ یعنی وہی دونوں بنیادی عناصر جو میں نے عرض کئے۔ دو کلیدی ابواب ایمان اور غیرت دینی۔ عام لوگوں کے ایمان اور غیرت دینی میں شک و تردد ڈالنا وہ چیز جس کے لئے دشمن پوری تندہی سے لگا ہوا ہے۔ دشمن جانتے ہیں کہ اگر انھیں اس میں کامیابی مل گئی تو اسلامی جمہوریہ ایران کی حملے اور اقدام کی طاقت ہی نہیں دفاعی طاقت بھی متاثر ہو جائے گی اور ختم ہو جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سازشوں میں لگے ہوئے ہیں۔ البتہ امریکہ وغیرہ کی سازش صرف یہ نہیں ہے، یہ تو سب سے اہم سازش ہے۔ وہ اسلامی جمہوریہ کے خلاف سیاست کے میدان میں، اقتصاد کے میدان میں، ان پابندیوں کو آپ دیکھ ہی رہے ہیں، سیکورٹی کے میدان میں، وہ سازش کرتے ہیں۔ چند دن قبل پیٹرول کی قیمت بڑھنے کے بعد پیش آنے والے واقعات سے پہلے ایک یورپی ملک میں، یورپ کے ایک چھوٹے سے لیکن حقیقتا شر پسند اور خبیث ملک میں ایک امریکی شخص کچھ وطن فروش ایرانی ایجنٹوں کے ساتھ بیٹھا۔ سب نے مل کر اسلامی جمہوریہ کے خلاف منصوبہ بندی کی، سازش تیار کی۔ سازش وہی تھی جو چند دن بعد ہم نے پیٹرول کی قیمت والے مسئلے میں دیکھی۔ یعنی پیٹرول والے مسئلے سے لوگوں کو تکلیف پہنچی تھی۔ کچھ لوگ اعتراض کے لئے باہر نکلے۔ جیسے ہی عوام، البتہ عوام کی ایک بہت محدود تعداد میدان میں نکلی، فریب خوردہ عناصر نے، عناد رکھنے والے عناصر نے، دشمن کے ان مہروں نے اسی سازش پر عملدرآمد شروع کر دیا۔ یعنی منصوبہ یہ تھا کہ آکر سرکاری املاک کو نشانہ بنائیں، عوامی مراکز کو نقصان پہنچائیں، آگ زنی کریں، لوگوں کو قتل کریں، تخریبی اقدامات کریں،با قاعدہ جنگ شروع کر دیں۔ میں نے جو عرض کیا کہ چند روز قبل ایسا ہوا تو یہ پہلے سے تیار شدہ منصوبے پر از سر نو غور کیا گیا۔ تیاریاں پہلے سے ہی کر لی گئی تھیں، افراد کو تیار کر لیا گيا تھا، کچھ افراد کو خرید لیا گیا تھا۔ یہ سب بھی کرتے ہیں۔ وہ جو بھی ممکن ہو کرتے ہیں۔ اس دن میں نے عوام کے اجتماع میں عرض کیا (12) کہ جس دن یہاں یہ سب کچھ ہو رہا تھا امریکہ میں، واشنگٹن میں امریکی حکومت کے افراد خوشیاں منا رہے تھے۔ اس عہدیدار سے انھوں نے کہا تھا کہ ایران کا کام اب تمام ہونے والا ہے۔ دو دن بعد حقیقت یہ سامنے آئی کہ خود ان کا کام تمام ہو گیا۔ بہت غمزدہ، بہت رنجیدہ اور سوگوار تھے۔ دشمن کی سازش کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس سازش کے جواب میں کلیدی اور بنیادی نکات کو مد نظر رکھنا ضروری ہے۔ کلیدی نکات سے مراد فکری بنیادیں ہیں، اسلامی فکری بنیادیں اور اسلامی انقلاب سے مربوط امور، اسی طرح قومی یکجہتی۔ شہید سلیمانی اور ان کے ساتھی شہیدوں کے پاکیزہ تابوت کی برکت سے عوام کے درمیان جو اتحاد نظر آیا اس کی حفاظت کی جانی چاہئے، اسے محفوظ رکھا جانا چاہئے۔ عوام کا زاویہ فکر یہی ہونا چاہئے۔ انقلاب کا زاویہ فکر ہونا چاہئے، انقلاب کے افراد کی توقیر و احترام کا زاویہ فکر ہونا چاہئے، شہیدوں کے احترام کا زاویہ فکر اور انقلاب کی اقدار کو یاد دلانے والی دیگر تمام چیزوں کے احترام کا زاویہ فکر ہونا چاہئے۔
ہم سب کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اس دشمن محاذ کی دشمنی جس کا میں نے نام لیا، وقتی اور عارضی نہیں ہے۔ یہ دشمنی فطرت کا حصہ ہے، یہ دائمی دشمنی ہے، جب بھی انھیں موقع ملے گا وہ ضرب ضرور لگائیں گے۔ اس کا علاج یہی ہے کہ ہم خود کو مستحکم بنائیں۔ عسکری اعتبار سے مستحکم بنائیں، سیکورٹی کے اعتبار سے مستحکم بنائیں، سیاسی اعتبار سے مستحکم بنائیں، اقتصادی اعتبار سے مستحکم بنائیں۔ اگر کچھ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ ہم ایک قدم پیچھے ہٹ جائیں، تھوڑی پسپائی اختیار کر لیں تو امریکہ اپنی دشمنی سے باز آ جائے گا تو یہ بہت بڑی بھول ہے۔ یہ سوچ کھلی ہوئی بھول ہے۔ کچھ لوگ جو سوچتے ہیں کہ آپ ایسا کام ہی نہ کریں کہ امریکہ کو غصہ آئے، کچھ لوگ کہتے ہیں اور اخبارات میں لکھتے ہیں تو یہ سوچ پروردگار عالم کے فرمان کے بالکل برعکس ہے۔: وَ مَثَلُهُم فِی الإِنجیلِ کَزَرعٍ أَخرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوی عَلی سُوقِهِ یُعجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغیظَ بِهِمُ الکُفَّارَ؛(13) مومن افراد کا پروان چڑھنا، ان پودوں کا نمو پانا، ان مومن نوجوانوں کا فروغ پانا ہے. اس لئے کہ «لِیَغیظَ بِهِمُ الکُفّار» دشمن چراغ پا ہو جائے۔ اسی چیز سے وہ زیادہ ناراض ہیں۔ علم کے میدان میں سرگرم نوجوانوں سے ناراض ہیں، جہاد کے میدان میں سرگرم نوجوانوں سے ناراض ہیں، خدمت رسانی کے میدان میں سرگرم نوجوانوں سے ناراض ہیں، عسکری میدان میں مصروف عمل نوجوانوں سے ناراض ہیں، انھیں لوگوں سے وہ ناراض ہیں (14)۔
دعا کرتا ہوں کہ ان شاء اللہ ہمیشہ آپ کی آواز دور دور تک پہنچے، آپ کی زبان تکلم شناس ہو اور اس راہ میں آپ کے قدموں میں ثبات ہو۔ اللہ تعالی رحمتیں نازل فرمائے ہمارے عزیزوں پر، حالیہ دنوں کے ہمارے ان شہیدوں، شہید سلیمانی، شہید ابو مہدی اور ان کے عزیز ساتھیوں پر، خواہ وہ عراقی ہوں یا ایرانی ہوں۔ اللہ رحمتیں نازل کرے ان سبھی لوگوں پر جو اس ملت کے سفر کے لئے راہ ہموار کر رہے ہیں۔
کل ہماری پارلیمنٹ نے جو بل پاس کیا ہے (15) یہ بہت اچھا ہے۔ پرسوں عراقی پارلیمنٹ نے بھی جو قرار داد پاس کی وہ بھی بہت اچھی تھی، یہ عراق سے امریکہ کو باہر نکالنے کی قرارداد تھی۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ان شاء اللہ خداوند عالم ان سب کو توفیق دے اور مدد کرے کہ وہ کامیابی کے ساتھ اس راستے پر اپنا سفر پورا کر سکیں۔
والسّلام علیکم و رحمةالله و برکاته
(1) سورہ بقرہ کی آیت نمبر 249 کا ایک حصہ، ترجمہ: کتنی بار ایسا ہوا ہے کہ ایک چھوٹا گروہ، اللہ کی اجازت سے ایک بڑے گروہ پر غالب آ گیا۔
(2) سورہ حدید کی آیت نمبر 16 کا ایک حصہ، وہ اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنھیں پہلے کتاب دی گئی تھی، پھر ایک لمبی مدت اُن پر گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔
(3) سورہ بقرہ کی آیت نمبر 61 کا ایک حصہ، اور (نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ان کی پیشانی پر) ذلت و خواری اور پستی و بد حالی (کی مہر) لگا دی گئی اور وہ اللہ کے غضب میں مبتلا ہو گئے۔
(4) سورہ طہ کی آیت نمبر 86 کا ایک حصہ، کیا (وعدے کی تکمیل کی) یہ مدت تم پر زیادہ طویل ہو گئی؟
(5) سورہ اعراف کی آیت نمبر 138 کا ایک حصہ، ہمارے لیے بھی ویسا ہی کوئي معبود بنا دو، جیسے ان کے معبود ہیں۔
(6) سورہ طلاق کی آیت نمبر 3 کا ایک حصہ، اور جو اللہ پر توکل کرے تو وہ اس کے لیے کافی ہے۔
(7) کافی جلد، 6، صفحہ 562، اے خدا میرے چہرے کو اپنے نور سے تابناک بنا دے۔
(8) حاضرین کے نعرے
9) حاضرین دہاڑیں مار کر رونے لگے
10) ایک دن پہلے کرمان میں شہید سلیمانی کے جلوس جنازہ میں بھاری ازدہام کی وجہ سے کچھ افراد جاں بحق ہو گئے۔
11) آج (آٹھ جنوری 2020) کی صبح عراق میں امریکی فوجیوں کی چھاونی عین الاسد پر سپاہ پاسداران انقلاب نے میزائل برسائے۔
12) ملک کے تیمارداروں (نرس) سے خطاب 1 جنوری 2020
13) سورهی فتح، آیت نمبر ۲۹ کا ایک حصہ؛ «… اور انجیل میں اُن کی مثال یوں دی گئی ہے کہ گویا ایک کھیتی ہے جس نے پہلے کونپل نکالی، پھر اس کو تقویت دی، پھر وہ گدرائی، پھر اپنے تنے پر کھڑی ہو گئی کاشت کرنے والوں کو وہ خوش کرتی ہے تاکہ کفار ان کے پھلنے پھولنے پر جلیں …»
14) حاضرین کے نعرہ تکبیر کے بعد رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ بہت شکریہ، اس تکبیر سے ثابت ہوا کہ آپ تھکے نہیں ہیں۔
15) ایران کی پارلیمنٹ میں پاس ہونے والا بل جس کی رو سے امریکہ کے تمام کمانڈر اور پنٹاگون کے تمام کارکن دہشت گرد قرار دئے گئے۔