رہبر انقلاب: ظالمین سے انتقام یقینی ہے!

16 دسمبر 2020 کو اپنی اس ملاقات میں آیت اللہ خامنہ ای نے جنرل قاسم سلیمانی کی شخصیت کے اہم  پہلوؤں پر روشنی ڈالی اور انھیں استکبار کے خلاف مزاحمت کے کوڈ ورڈ سے تعبیر کیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے عوام اور حکام کو چند اہم سفارشات کیں
رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب حسب ذیل ہے؛

بسم الله الرّحمن الرّحیم

و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاهرین و لعنۃ اللہ علی اعدائھم اجمعین.

شہید سلیمانی کی برسی کے پروگرام میں ثقافتی سرگرمیوں اور گوناگوں اقدامات کی عوامی ماہیت کی ضرورت

سب سے پہلے تو میں بہنوں اور بھائیوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے شہید سلیمانی کی برسی کے پروگرام کے لئے یہ کمیٹی تشکیل دی، اسی طرح شہدائے پاسبان حرم اور دنیائے اسلام کے عظیم شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ایک نیٹ ورک قائم کیا۔ اسی طرح جو نیٹ ورک ہمارے عزیز شہید کے محترم اہل خانہ نے ‘مکتب سلیمانی’ کے نام سے تشکیل دیا ہے۔ یہ سب بڑے ضروری، اچھے اور مفید اقدامات ہیں۔ ان شاء اللہ بھرپور تندہی، ہوشیاری اور توجہ کے ساتھ انھیں آگے بڑھایا جائے۔ آپ سب اپنی محنت کیجئے۔ یہ خیال بھی رکھئے، جیسا کہ محترم جنرل (حسین سلامی) نے بیان فرمایا، ہمارے عزیز شہید سلیمانی مرحوم سے متعلق پروگرام عوامی ہیں۔ یعنی خود عوام، جو واقعی ان سے گہری عقیدت رکھتے ہیں اور جلوس جنازہ وغیرہ جیسے مواقع پر انھوں نے اس کا مظاہرہ بھی کیا، مختلف شعبوں میں، گوناگوں اقدامات اور ثقافتی کاموں میں شریک رہیں۔ ان امور کو خاص حلقوں تک محدود نہ کریں۔

شہید سلیمانی ملت ایران کے قومی ہیرو اور مسلم امہ کے چیمپیئن

اس مناسبت پر میں اپنے عزیز شہید سلیمانی کے بارے میں، جنہیں میں کبھی فراموش نہیں کر سکتا، اسی طرح شہید ابو مہدی مہندس رضوان اللہ تعالی علیہ کے بارے میں جو بات عرض کرنا چاہتا ہوں، یہ ہے کہ سلیمانی کی شہادت ایک تاریخی واقعہ ہے۔ یہ کوئی معمولی سانحہ نہیں ہے جسے تاریخ بھلا دے۔ یہ واقعہ تاریخ میں ایک درخشاں باب کے طور پر ثبت ہو گیا۔ شہید سلیمانی ملت ایران کے بھی قومی ہیرو بن گئے اور مسلم امہ کے بھی چیمپیئن قرار پائے۔ یہ بڑی بنیادی چیز ہے۔ ایرانی بھی اپنے اوپر ناز کریں کہ ان کے درمیان سے ایک شخص ایک دور افتادہ گاؤں سے اٹھتا ہے، محنت کرتا ہے، جدوجہد کرتا ہے، خود سازی کرتا ہے اور مسلم امہ کا چیمپیئن اور درخشاں ہستی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ میں ابھی اس بارے میں دو چار باتیں عرض کروں گا۔

شہید سلیمانی شجاعت، استقامت، ذہانت، تیز دماغ، جذبہ ایثار و روحانیت کا مظہر

وہ ملت ایران کے قومی ہیرو ہیں کیونکہ ملت ایران نے اپنے ثقافتی ورثے کو، روحانی اور انقلابی سرمائے کو، اسی طرح اپنے اقدار کو ان کے وجود میں جلوہ گر دیکھا، مجسم ہوتے ہوئے دیکھا۔ ان کی زندگی میں ہی، جب ان کی آمد و رفت جاری تھی، بہت ہی سادگی سے رہتے تھے، اپنے لئے کسی طرح کے اہتمام کے قائل نہیں تھے، اس وقت بھی میں دیکھتا تھا کہ ان سڑکوں پر لوگوں نے ان کی تصویریں لگا رکھی ہیں اور ان پر ناز کرتے ہیں۔ جب شہید ہو گئے تو ان کی تعظیم کرنے والوں میں اور ذہن کے اند اور خارج از ذہن ان کو نذرانہ عقیدت پیش کرنے کے پروگراموں کا اہتمام کرنے والوں میں صرف انقلابی افراد نہیں تھے بلکہ ہر طبقے کے لوگوں نے یہاں تک کہ ان افراد نے بھی جن کے بارے میں یہ نہیں سوچا جاتا کہ وہ ایک انقلابی شخصیت سے اس قدر جذباتی لگاؤ رکھتے ہوں گے، اپنی عقیدت کا اظہار کیا۔ کیوں؟ اس لئے کہ وہ ایران کے ثقافتی اقدار کا آئینہ تھے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔

وہ ایک طرف تو شجاعت اور مزاحمت کے جذبے سے آراستہ تھے۔ شجاعت و مزاحمت ایرانی خصلتوں میں شامل ہے۔ عاجزی، پسپائی، بے عملی وغیرہ ہمارے قومی جذبات سے تضاد رکھتی ہے۔ جو لوگ قوم  پرستی کے دعوے کرتے ہیں لیکن عملی طور پر عاجزی کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ در حقیقت تضاد کا شکار ہیں۔ وہ شجاعت کا مظہر تھے، استقامت کا مظہر تھے۔ اس کا مشاہدہ سب کرتے تھے اور سب دیکھتے تھے۔

دوسری طرف بڑی ذہانت اور تیز دماغ کے مالک تھے۔ بہت ذہین انسان تھے۔ اس سلسلے میں بہت سے نکات ہیں۔ یہ جو ایک خاص مسلک کی جانب مائل ایک تنظیم کے ابھرنے کا قضیہ ہے جو مزاحمتی محاذ کے خلاف سرگرم ہے، انھوں نے اس کی پیش بینی ایک عرصہ پہلے کر دی تھی اور مجھے بتایا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ میں دنیائے اسلام کے حالات میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں، انھوں نے کچھ ملکوں کا نام بھی لیا تھا، اس سے لگتا ہے کہ ایک تنظیم معرض وجود میں آ رہی ہے۔ کچھ عرصہ بعد داعش سامنے آ گئی۔ بہت ذہین اور تیز دماغ کے مالک تھے۔ جن امور کو سنبھالنے کے سلسلے میں دیگر ممالک سے ان کا رابطہ رہتا تھا اور جن میں وہ سرگرم تھے، ان میں بڑی سمجھداری اور دور اندیشی سے کام کرتے تھے۔ یہ میں بہت واضح طور پر محسوس کرتا تھا۔ گوناگوں امور کے سلسلے میں ہمارا آپس میں رابطہ رہتا تھا، بہت دور اندیش انسان تھے۔ یہ بھی ایرانیوں کی ایک خصوصیت ہے۔ ملت ایران کے ثقافتی سرمائے کا حصہ ہے۔

ایک طرف ایثار اور انسان دوستی کے جذبے سے سرشار تھے۔ یعنی ان کی نظر میں یہ قوم اور وہ قوم کی بحث کا کوئی مطلب نہیں تھا۔ وہ انسان دوست تھے۔ واقعی ان میں سب کے لئے جذبہ ایثار تھا۔ ایک طرف روحانیت، اخلاص اور آخرت سے لگاؤ رکھنے والے انسان تھے۔ واقعی روحانیت کی وادی کے انسان تھے۔ واقعی اہل معنویت اور اہل اخلاص تھے۔ دکھاوے والے انسان نہیں تھے۔ یہ اخلاقی اوصاف ہیں، یہ بڑے اہم اوصاف ہیں۔ عوام نے یہ چیزیں دیکھیں کہ یہ ساری خصوصیات اس شخص میں نمایاں ہیں، فلاں ملک اور فلاں ملک کے پہاڑوں پر، بیابانوں میں گوناگوں دشمنوں کے سامنے پہنچ گئے اور ان ایرانی ثقافتی اقدار کو مجسم شکل میں پیش کیا، منعکس کیا اور دکھایا۔ لہذا ملت ایران کے ہیرو بن گئے۔

 
شہید سلیمانی دنیائے اسلام میں نئی بیداری اور مزاحمتی قوت کو مجتمع اور منظم کرنے کا کوڈ ورڈ

دوسری طرف ہم نے عرض کیا کہ وہ مسلم امہ کے بھی چیمپیئن ہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ شہید سلیمانی نے اپنی سرگرمیوں سے اور آخر میں اپنی شہادت کے ذریعے، ان کی شہادت بھی اسی مفہوم کی تکمیل کرنے والی ثابت ہوئی، دنیائے اسلام کی نئی بیداری اور مزاحتمی قوت کو مجتمع و منظم کرنے کا کوڈ ورڈ بن گئے۔ آج دنیائے اسلام میں جہاں کہیں بھی استکبار کی زیادتیوں کے مقابلے میں مزاحمت کے آثار ہیں وہاں اس عمل کا مظہر اور کوڈ ورڈ شہید سلیمانی ہیں۔ مختلف ملکوں میں ان کی تعظیم کی جاتی ہے۔ ان کی تصویریں چسپاں کی جاتی ہیں۔ ان کے نام کی تشہیر کی جاتی ہے۔ ان کے لئے نشستیں ہوتی ہیں۔ انہوں نے در حقیقت قوموں کو مزاحمت کی نئی فکر اور جدوجہد کا نیا آئیڈیل دیا، قوموں تک پہنچایا اور ان کے اندر عام کر دیا۔ یہ بڑا اہم اور حساس کردار ہے۔ اسی لئے وہ حقیقی معنی میں ایک نمایاں ہستی اور اسلامی چیمپیئن ہیں۔

شہید سلیمانی استکبار پر فتح کے ہیرو

شہید سلیمانی نے اپنی زندگی میں بھی استکبار کو شکست دی اور اپنی شہادت کے ذریعے بھی اسے شکست سے دوچار کیا۔ یہ صرف دعوی نہیں ہے۔ یہ ثابت شدہ حقائق ہیں۔ اپنی زندگی میں شکست دی اس کا ثبوت یہ ہے کہ امریکہ کے صدر (2) نے کہا کہ ہم نے سات ٹریلین ڈالر خرچ کر دئے مگر عراق میں ہمیں کچھ بھی حاصل نہیں ہو سکا۔ یہاں تک کہ وہ عراق کی ایک چھاونی کا دورہ کرنے کے لئے رات کی تاریکی کا سہارا لینے پر مجبور ہوئے (3)۔ یہ بات ساری دنیا نے مانی کہ امریکہ عراق میں اور شام میں، خاص طور پر عراق میں اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو پایا۔ کیوں؟ اس قضیئے میں کون سرگرم عمل تھا؟ اس کارنامے کی چیمپیئن سلیمانی تھے۔ بنابریں انھوں نے اپنی زندگی میں انھیں شکست دی۔

اپنی شہادت کے بعد بھی دشمنوں کو شکست دی۔ ایران میں جو جلوس جنازہ نکلا وہ واقعی عجیب اور نا قابل فراموش تھا۔ اسی طرح عراق میں دسیوں لاکھ لوگوں کی شرکت سے جو تشییع جنازہ ہوئی، نجف میں، بغداد میں دسیوں لاکھ لوگوں کی شرکت، ان کا اور شہید ابو مہدی مہندس کا جلوس جنازہ ایک ساتھ نکلا۔ در حقیقت یہ جلوس جنازہ اور اس کے بعد انھیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے منعقد ہونے والے پروگرام دیکھ کر استکبار کے سافٹ وار کے ماہرین ششدر رہے گئے۔ جو لوگ استکبار کی فکری جنگ کے اہم عناصر ہیں اور در حقیقت وہی سرگرم عمل ہیں اور امریکہ و استکبار کی سافٹ وار کے کمانڈر ہیں وہ سب مبہوت رہ گئے کہ یہ کیا حالات پیدا ہو گئے؟! یہ کون تھا؟ یہ کیا تھا؟ یہ کیسی عظیم تحریک ہے جس نے ان کو شکست دے دی۔

 
امریکہ پر زوردار طمانچہ؛ استکبار کے کھوکھلے تسلط پر فکری غلبہ

ان کی شہادت کے واقعے سے جو صورت حال رونما ہوئی وہ امریکہ پر پڑنے والا پہلا طمانچہ تھا۔ اس وقت تک امریکہ پر پڑنے والا سب سے بڑا طمانچہ یہی عظیم عوامی رد عمل تھا جو سامنے آیا۔ اس کے بعد ہمارے بھائیوں نے ایک اور طمانچہ رسید کیا۔ مگر اس سے زیادہ زوردار طمانچہ استکبار کے کھوکھلے تسلط پر فکری غلبہ حاصل کرنا ہے۔ یہ امریکہ پر پڑنے والا سب سے بڑا طمانچہ ہوگا جو اسے رسید کیا جانا چاہئے۔ ہمارے انقلابی نوجوان اور مومن دشخصیات اپنی بلند ہمتی سے اس استکباری تسلط کو مسمار کریں اور امریکہ کو یہ زوردار طمانچہ لگائیں۔ ایک بات تو یہ ہے اور دوسری چیز ہے علاقے سے امریکہ کا اخراج۔ اس کے لئے قوموں کے عزم اور مزاحمتی پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ یہ کام انجام پانا چاہئے۔ یہ بڑا طمانچہ ہے۔

البتہ یہ سب کچھ قاتل سے انتقام لئے جانے کے علاحدہ اقدامات ہیں۔ یہ جو باتیں ہم نے کہیں ان کا تعلق مجموعی طور پر استکبار اور امریکہ سے ہے۔ سلیمانی کے قاتل اور سلیمانی کے قتل کا حکم صادر کرنے والے کو خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ یہ حق اپنی جگہ محفوظ ہے۔ حالانکہ ایک عزیز (تحریک حزب اللہ کے سکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ) کے بقول سلیمانی کے پیر کی جوتی بھی اس قاتل کے سر سے زیادہ با شرف ہے، اگر قاتل کا سر قلم ہو جائے تو وہ بھی سلیمانی کی جوتی کا فدیہ نہیں قرار پا سکتا۔ یہ صحیح ہے۔ تاہم انھوں نے ایک حماقت کی ہے تو اس کا خمیازہ بھی انھیں بھگتنا ہوگا۔ حکم جاری کرنے والے اور قاتل یہ یاد رکھیں کہ جب بھی ممکن ہوا، جس وقت بھی ممکن ہوا، ہم مناسب وقت کے انتظار میں ہیں، ان سے انتقام لیا جائے گا۔

عزیز عوام اور عہدیداران کے لئے چند سفارشات:

1- اقتصادیات، سائنس و ٹیکنالوجی اور عسکری میدانوں میں استحکام

یہ نشست بہت اچھی ہے، شہید سلیمانی کے نام سے منسوب ہے۔ اس نشست میں میں تین چار سفارشات کرنا چاہتا ہوں۔ یہ بہت اہم سفارشات ہیں۔

سب سے پہلے ملک کے حکام اور عزیز عوام کے لئے میری سفارش یہ ہے کہ طاقتور بننے کی کوشش کریں۔ ہمارے خراسانی شاعر کے بقول: «برو قوی شو اگر راحت جهان طلبی» (۴)

طاقتور بنئے۔ اقتصادیات میں بھی مستحکم بنئے، علم و سائنس میں بھی مستحکم بنئے، ٹیکنالوجی میں بھی مضبوط بنئے اور دفاعی شعبے میں بھی طاقتور بنئے، مضبوط بنئے۔ جب تک آپ طاقتور نہیں ہو جائیں گے دشمن کی حریصانہ نظر آپ پر لگی رہے گی، وہ حملہ کریں گے، جارحیت کریں گے۔ یہ پہلی سفارش ہے جو میری دائمی سفارش رہتی ہے اور میں جہاں تک میری توانائی ہے، پروردگار کی طرف سے جتنی توفیق ملتی ہے اس پہلو پر کام کر رہا ہوں، عہدیداران کی بھی ذمہ داری ہے کہ اس پر کام کریں۔

-2 دشمن پر عدم اعتماد

دوسرے یہ کہ دشمن پر اعتماد نہ کیجئے۔ یہ تاکید کے ساتھ میری نصیحت ہے۔ دشمن پر بھروسہ نہ کیجئے۔ عوام کی مشکلات دور کرنے کے لئے اور ملک کا مستقبل سنوارنے کے لئے دوسروں کے وعدوں پر بھروسہ نہ کیجئے۔ میری یہ سفارش عہدیداران سے ہے۔ یہ بھلے انسانوں کے وعدے نہیں ہیں۔ برے لوگوں اور شر پسندوں کے وعدے ہیں۔ وہ سو وعدوں میں سے ایک بھی پورا کرنے والے نہیں ہیں۔ مخاصمتوں کو فراموش نہ کیجئے۔ مخاصمانہ برتاؤ کیا ہے۔ آپ نے دیکھ لیا کہ ٹرمپ کے امریکہ نے اور اوباما کے امریکہ نے آپ کے ساتھ کیا کیا۔ البتہ یہ صرف ٹرمپ تک محدود نہیں ہے کہ مثلا یہ فرض کر لیجئے کہ ٹرمپ کا دور ختم ہوا تو یہ کہا جائے کہ دشمنی ختم ہو گئی۔ نہیں، اوباما کے امریکہ نے بھی آپ کے ساتھ بدی کی، ملت ایران کے ساتھ بدی کی، تین یورپی ممالک کا بھی وہی حال ہے۔ ان تین یورپی ممالک نے انتہائی برا کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے ملت ایران کے سامنے پستی، دوغلے پن اور منافقت کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ دوسری سفارش ہے۔

-3 قومی یکجہتی کی حفاظت

تیسری سفارش: قومی یکجہتی کی حفاظت کیجئے۔ ہمارے ملک کو اتحاد کی ضرورت ہے۔ ملت ایران کا اتحاد۔ بہت سے امور میں ملت ایران کی آواز متحد آواز ہوتی ہے۔ اس کا مطالبہ متحدہ مطالبہ ہوتا ہے۔ مگر عہدیداران اسے ختم کر سکتے ہیں۔ ہمارے عہدیداران کا ہنر یہ ہوگا کہ اس اتحاد کو، اس صدائے واحد کو ٹکڑے ٹکڑے نہ کریں، قوم کو ٹکڑے ٹکڑے نہ کریں، اتحاد کو ختم نہ کریں۔ ملک کے عہدیداران خیال رکھیں کہ انھیں اس اتحاد کو مزید مستحکم بنانا ہے۔ تینوں شعبے (حکومت،  پارلیمنٹ اور عدلیہ) مل کر کام کریں، ایک دوسرے سے تعاون کریں۔ خاص طور پر تینوں شعبوں کے سربراہان۔ اگر یہ تعاون، یہ اتحاد اور یہ امداد باہمی قائم رہے تو یقینا قوی اتحاد روز بروز زیادہ مضبوط ہوگا۔ مذاکرات کا راستہ ہے۔ اگر کچھ اختلافات ہیں، یا ممکن ہے کہ اختلافات پیدا ہوں تو مذاکرات کے ذریعے انھیں حل کیجئے۔ کیا آپ یہ نہیں کہتے کہ دنیا سے ہمیں گفتگو کرنا چاہئے۔ اچھی بات ہے، جب دنیا سے گفتگو کی جا سکتی ہے تو ملک کے اندر موجود افراد سے مذاکرات کیوں نہیں ہو سکتے؟ جائیے مذاکرات کیجئے، حل کیجئے۔ بعض باتیں جو ان دنوں سننے میں آتی ہیں وہ اختلافات پیدا کرنے والی باتیں ہیں، اتحاد پیدا کرنے والی باتیں نہیں ہیں۔

-4 پابندیوں کو بے اثر بنایا جائے

چوتھی اور آخری بات، میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں (5) اور اس وقت پھر دہرا رہا ہوں کہ پابندیاں اٹھانا دشمن کے ہاتھ میں ہے اور پابندیوں کو بے اثر بنانا ہمارے ہاتھ میں ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے؟ ہم خود تو پابنیاں نہیں اٹھا سکتے، پابندیاں دشمن کو ختم کرنی ہیں لیکن ہم دشمن کی پابندیوں کو بے اثر ضرور بنا سکتے ہیں۔ تو اسے ترجیح حاصل ہے، یہ صحیح راستہ ہے اور ہمیں زیادہ اسی کی فکر ہونا چاہئے۔ البتہ ہم یہ نہیں کہتے کہ ہم پابندیاں ہٹوانے کی کوشش ہی نہ کریں۔ کیوں نہیں، اگر واقعی پابندیوں کو ہٹوا سکتے ہیں تو اس میں ایک گھنٹے کی بھی تاخیر نہیں کرنا چاہئے۔ البتہ چار سال سے تاخیر ہوتی جا رہی ہے۔ 2016 سے ہی پابندیاں ایک ساتھ ہٹنے والی تھیں، لیکن اب تک ہٹیں تو نہیں، ان میں اضافہ ضرور ہو گیا۔ تاخیر ہوئی۔ اب اگر ہم صحیح روش کے ذریعے، عاقلانہ اور اسلامی و ایرانی روش کے ذریعے، با عزت روش کے ذریعے پابندیوں کو ہٹوا سکتے ہیں تو ضرور ہٹوائیں۔ لیکن اس فکر میں نہ پڑئے، پابندیوں کو بے اثر بنانے کے طریقوں پر زیادہ غور کیجئے جو آپ کے ہاتھ میں ہیں اور جسے آپ انجام دے سکتے ہیں۔ کوشش کیجئے، مل کر کام کیجئے، محنت کیجئے۔ یہ میری سفارش ہے۔ میں ملک کے عہدیداران کی پشت پناہی کروں گا لیکن شرط یہ ہے کہ وہ ملت کے اہداف کے پابند رہیں۔

امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ملت ایران کو، ملک کے تمام عہدیداران کو بڑے کاموں کی انجام دہی کی توفیق عنایت فرمائے۔

و السّلام علیکم و رحمۃ‌ اللہ و برکاتہ

 

متعلقہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *