فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی فضیلت کے چند جلوے! از رہبر انقلاب
شناخت و معرفت کے وسائل از شھید مطہری
خدا نے انسان کو حواس عطا کئے ہیں تاکہ وہ ان کے ذریعے سے دنیا کا مطالعہ کرے
معرفت و شناخت کے وسائل سے مراد قوت تفکر و استدلال نفس کی پاکیزگی اور دوسرے لوگوں کے علمی آثار ہیں۔ سورہ مبارکہ نحل میں ارشاد خداوندی ہے: واللہ اخرجکم من بطون امھاتکم لاتعلمون شیئاً و جعل لکم السمع والابصار و الافئدة لعلکم تشکرون( سورہ نحل آیت ۷۸) ”خدا نے تمہیں تمہاری ماؤں کے شکموں سے باہر نکالا اس حالت میں کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے اور تمہیں کان آنکھ و دل عطا کئے تاکہ تم ان نعمتوں کا شکر ادا کرو اور ان سے کماحقہ نفع حاصل کرو۔“اس آیہ کریمہ میں صاف طور پر بیان ہوا ہے کہ انسان افلاطون کے نظریے کے برعکس(۱) اپنے پیدا ہونے کے وقت ہر قسم کے علم و معرفت سے بے گانہ ہوتا ہے اور خدا نے انسان کو حواس عطا کئے ہیں تاکہ وہ ان کے ذریعے سے دنیا کا مطالعہ کرے اور اس کو ضمیر اور تجزیہ و تحلیل کی قوت عنایت فرمائی ہے تاکہ جن چیزوں کو وہ حواس کے ذریعے حاصل کرتا ہے اب دوسرے مرحلے میں ان پر غور و فکر کرے ان کی گہرائیوں میں جھانک کر دیکھے اور ان کی حقیقت کو اور ان قوانین کو جو ان اشیاء پر حاکم ہیں معلوم کرے۔
اس آیت میں صاف صاف لفظوں میں حواس کو (جن میں کان اور آنکھ کا سب سے زیادہ اہم ہونے کی وجہ سے بطور نمونہ تذکرہ کیا گیا ہے) معرفت و شناخت کے وسائل (یعنی سطحی شناخت اور شناخت کا پہلا مرحلہ) اسی طرح ضمیر (دل) کو بھی معرفت و شناخت اور علم پیدا کرنے کے وسائل (یعنی منطقی اور عمیق معرفت کا مرحلہ) کے عنوان سے متعارف کروایا گیا ہے۔ اس آیت میں ضمناً شناخت کے بارے میں ایک دوسرے مسئلے کی طرف بھی اشارہ ہے اور وہ مراحل شناخت کا مسئلہ ہے۔
تزکیہ نفس اور تقویٰ بھی معرفت کا ایک وسیلہ ہے
قرآن جس طرح حواس اور قوت فکر کو معرفت کے وسائل سمجھتا ہے اسی طرح تزکیہ نفس اور تقویٰ و پرہیزگاری کو بھی معرفت کا ایک وسیلہ سمجھتا ہے۔ بہت سی آیتوں میں انہی مطالب کی طرف اشارہ یا تصریح کی گئی ہے۔ ان تتقواللہ یجعل لکم فرقانا ( سورہ انفال آیت ۲۹) ”اگر تم اپنے آپ کو ان باتوں سے جو خدا کو پسند نہیں ہیں بچاؤ گے تو اپنے دل کو پاک و صاف اور محفوظ رکھو گے تو خداوند عالم تمہارے واسطے حق و باطل کے درمیان فرق پیدا کرنے کا ایک ذریعہ معین فرمائے گا۔“
ونفس وما سوا ھا فالھمھا فجورھا و تقوا ھا قد افلح من زکیھا و قد خاب من دسیھا( سورہ شمس آیت ۷۔۱۰)
”قسم ہے انسان کی جان کی اور اس کی آراستگی اور اعتدال کی کہ خدا نے اسے اس کی ناپاکی اور پاکی کے بارے میں الہام کیا ہے اور اس کو سمجھا یاہے جس شخص نے اس کا تزکیہ کیا اس نے فلاح پائی اور جس نے اس کو آلودہ کیا وہ ناکام ہوا۔“
کتاب معرفت کا ایک ذریعہ ہے
علم حاصل کرنا یاد کرنا کتاب کو پڑھنا بھی ان وسیلوں میں سے ہے کہ اسلامی تعلیمات نے اس کی طرف توجہ کی ہے اور اس کو باقاعدہ طور پر ایک خاص اہمیت دی ہے اس کی اہمیت کے لئے یہی کافی ہے کہ پیغمبر پر وحی کا آغاز لفظ ”اقراء“ یعنی پڑھو سے ہوتا ہے۔ قرات یعنی (کتاب سے) کسی عبارت کا پڑھنا ہے۔
اقراء باسم ربک الذی خلق خلق الانسان من علق اقرا و ربک الاکرام الذی علم بالقلم علم الانسان مالم یعلم( سورہ علق آیت ۱۔۵)
”اے رسول پڑھو اپنے پروردگار کے نام سے جس نے پیدا کیا جس نے انسان کو بستہ خون سے پیدا کیا (یا اس حیوان سے جو جونک سے مشابہ ہوتا ہے) پڑھو اور تمہارا سب سے زیادہ کریم (و بزرگ) پروردگار ہے جس نے انسان کو قلم کے ذریعے علم سکھایا انسان کو وہ باتیں پڑھا دیں جنہیں وہ نہیں جانتا تھا۔
کتاب: وحی اور نبوت از شہید مرتضی مطہری؛ سے اقتباس