شبِ ہجرت آنحضرت(ص)کی جان بچانے کے لئے، امیر المومنینؑ کی عظیم قربانی از رہبر انقلاب

ہجرتِ رسول اللہ(ص)کے ظاہر و باطن میں فرق!

حضرت علی بن ابی طالبؑ تیرہ سالوں تک مشکل ترین حالات میں رسول اللہ(ص)کے زمانہ بشانہ کھڑے رہے۔ اس کے بعد جب آپؑ کی تیرہ سالہ مشقتوں کا خاتمہ ہوا تو، یہ صحیح ہے کہ آنحضرت(ص)کی ہجرت مجبوراً اور ضرورت کے تحت اور قریش و اہلِ مکّہ کے دباؤ میں واقعہ ہوئی تھی، لیکن اس کا مشتقبل روشن تھا۔ سب یہ جانتے تھے کہ یہ ہجرت کامیابیوں کا پیش خیمہ ہے۔فتوحات کا آغاز ہے۔

 

سب کو دنیا کی لالچ، علیؑ کو خوشنودیِ خدا کی فکر!

بس جہاں ایک عظیم نہضت مشکل دور سے نکل کے سکون و عزت کے دور میں داخل ہونا چاہتی ہو، اس وقت کہ جب ہر کوئی موقعہ سے فائدہ اٹھانے کے لئے بے تاب ہوتا ہے تاکہ کوئی سماجی عہدہ حاصل کرسکے، کوئی منصب پاسکے، اسی لمحے امیر المومنینؑ اس بات پہ تیار ہوتے ہیں کہ بسترِ رسول اللہ(ص) پر، تاریک و ظلمت سے بھری رات میں سوئیں، تاکہ آنحضرت(ص)باآسانی اس گھر اور شہر سے ہجرت کر سکیں۔

 

وہ بستر جس کا بسترِ شہادت بن جانا تقریباً حتمی تھا!

شبِ ہجرت کو بسترِ رسول اللہ(ص)پر سونے والے شخص کی موت ظاہرا یقینی تھی۔ اب چونکہ مجھے اور آپ کو اس واقعے کا علم ہے اس لئے ہم جانتے ہیں کہ امیر المومنینؑ اس واقعے میں شہید نہیں ہوئے۔ اس بنا پہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہاں سب کو یہ بات معلوم تھی امیر المومنینؑ شہید نہیں ہوں گے۔ نہیں! مسئلہ یہ ہے کہ ایک خاص رات میں ایک خاص شخص کا شہید ہونا حتمی ہے۔

 

 

عہد معارف ، رہبر معظم

متعلقہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *