فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی فضیلت کے چند جلوے! از رہبر انقلاب
رسول اکرمؐ کا منافقین کے ساتھ برتاو از رہبر انقلاب
یہ لوگ (منافقین) عوام کے درمیان رہتے تھے، زبانی طور پر تو ایمان کا اقرار کیا کرتے تھے مگر ان کے دل ایمان سے خالی تھے۔ یہ انتہائی پست، کینہ پرور، تنگ نظر اور دشمن کا ساتھ دینے کے لئے ہمیشہ تیار رہنے والے افراد تھے۔ یہودیوں اور منافقوں میں ایک بڑا فرق یہ تھا کہ منافقین کی اسلام دشمنی منصوبہ بندی کے ساتھ نہیں تھی۔
رسول اکرمؐ منصوبہ ساز دشمن کو امان نہیں دیتے تھے
سرور کائناتﷺ حملے کی تاک میں رہنے والے منصوبی ساز دشمن کو امان نہیں دیتے تھے اور اس کے ساتھ وہ رویہ اختیار کرتے تھے جو آپؐ نے یہودیوں کے ساتھ اختیار کیا، لیکن جو دشمن منصوبہ بندی نہیں کرتے تھے اور جن کی بے ایمانی، خباثت اور ہٹ دھرمی انفرادی تھی، نبی رحمت ﷺ انہیں برداشت کر لیا کرتے تھے۔
عبد اللہ ابن اُبَی رسول اکرمﷺ کے بدترین دشمنوں میں سے ایک تھا۔ وہ تقریباً حضور اکرمﷺ کی زندگی کے آخری سال تک زندہ رہا، لیکن آپ نے ان کے ساتھ سخت رویہ اختیار نہیں کیا۔
سب مسلمان جانتے تھے کہ وہ منافق ہے، اس کے با وجود آپﷺ نے اس کے ساتھ دیگر مسلمانوں جیسا ہی سلوک روا رکھا، ہمیشہ بیت المال سے اس کے حقوق ادا کئے اور اس کی جان و مال کو محفوظ رکھا، جبکہ اس جیسے منافقین اپنی خباثتوں سے باز نہیں آتے تھے اور سورہ بقرہ کا ایک حصہ انہیں کی مذمت میں نازل ہوا ہے۔
منصوبہ ساز منافقین کے خلاف اقدام
جب بھی منافقین کے کسی گروہ نے منصوبہ بندی کے ساتھ تحریک شروع کی، تو نبی اکرمؐ نے بھی اس کا مقابلہ کیا۔ ایک مرتبہ ان لو گوں نے منافقانہ سازشوں کے لئے ضرار نامی مسجد کو مرکز بنایا۔ اسلامی حکومت سے باہر روم کی قلمرو میں موجود ابو عامر راہب جیسے شخص سے رابطہ برقرار کیا تا کہ رومیوں کے ذریعے سرور کائناتؐ پر لشکر کشی کی جائے۔اس منصوبہ بندی کے ساتھ کی جانے والی دشمنی کا مقابلہ کرنے کے لئے حضور اکرمؐ نے مسجد ضرار منہدم کروا دی اور فرمایا کہ یہ عمارت مسجد نہیں، بلکہ یہ الہہ اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں کا گڑھ ہے۔
غیر منصوبہ ساز منافقین کے ساتھ نرم سلوک
خود مدینہ منورہ میں بھی منافقین موجود تھے لیکن اللہ کے رسولؐ نے منصوبہ ساز دشمنوں کی طرح ان کے ساتھ سلوک نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آپؐ نے منصوبہ ساز منافقین کے مقابلے میں سخت رویہ اختیار کیا، لیکن دیگر منافقین کے ساتھ نرم سلوک روا رکھا کیونکہ ان کا خطرہ انفرادی تھا۔ اکثر و بیشتر سرور کائناتﷺ اپنے نیک سلوک کے ذریعے انہیں شرمندہ ہونے پر مجبور کر دیتے تھے۔
کتاب: ڈھائی سو سالہ انسان، ص۵۴ الی ۵۵، رہبر معظم سید علی خامنہ ای؛ سے اقتباس