فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی فضیلت کے چند جلوے! از رہبر انقلاب
خونچکاں شمشیروں کے سائے تلے مکتب تشیع کی آبیاری
منظم عالمی نیٹورک کی تشکیل
سامرا کوئی بڑا شہر نہیں تھا، بلکہ ایسا شہر تھا اور ایسا دار الخلافہ تھا جسے نیا نیا بسایا گيا تھا اور وہاں حکومت کے عمائدین، عہدیداران وغیرہ اور عوام الناس کی بس اتنی تعداد رہتی تھی کہ روز مرہ کی ضرورت ان سے پوری ہو جائے۔ سُرّ مَن رأىٰ یا سامرا در حقیقت بغداد کے بعد ایک نو تعمیر شدہ شہر تھا۔ اسی شہر سامرا میں ان دونوں ہستیوں امام علی نقی اور امام حسن عسکری علیہما السلام نے رابطے اور اطلاع رسانی کا ایسا عظیم نیٹ ورک بنایا کہ وہ عالم اسلام کے گوشے گوشے تک پھیل گيا۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ یعنی ہم ائمہ علیہم السلام کی زندگی کے ان پہلوؤں کو جب دیکھتے ہیں تو سمجھ میں آتا ہے کہ وہ کیا کر رہے تھے۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ صرف نماز، روزے اور طہارت و نجاست وغیرہ کے مسائل بیان نہیں کرتے تھے۔ بلکہ اسی اسلامی معنی و مفہوم کے ساتھ امام کی منزلت میں تھے اور امام کی حیثیت سے لوگوں سے بات کرتے تھے۔
آٗئمہؑ کی جوانی میں شہادتوں کی وجہ
میری نظر میں یہ پہلو بہت زیادہ قابل توجہ ہے۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ حضرت امام علی نقی علیہ السلام کو مدینہ سے سامرا لایا گيا اور جوانی کے ایام میں بیالیس سال کی عمر میں حضرت کو شہید کر دیا گیا۔ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کو اٹھائیس سال کی عمر میں شہید کر دیا گیا۔ یہ ساری چیزیں ثابت کرتی ہیں کہ پوری تاریخ میں ائمہ علیہم السلام، آپ کے شیعوں اور اصحاب کی عظیم مہم مسلسل جاری رہی۔ حالانکہ حکومت بے حد ظالم تھی، ظالمانہ برتاؤ کرتی تھی لیکن اس کے باوجود ائمہ علیہم السلام کامیاب رہے۔ یعنی ائمہ کی غریب الوطنی اور بے کسی کے ساتھ ہی اس وقار اور اس عظمت کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے۔
خونچکاں شمشیروں کے سائے تلے
اسی سامراء شہر میں حضرت امام علی نقی علیہ السلام کے زمانے میں اچھی خاصی تعداد میں شیعہ علماء جمع ہو گئے اور امام علیہ السلام نے ان کے ذریعے امامت کا پیغام پورے عالم اسلام میں خطوط وغیرہ کی شکل میں پہنچانے میں کامیابی حاصل کی۔ قم، خراسان، رے، مدینہ، یمن اور دیگر دور دراز کے علاقوں اور پوری دنیا میں انہی افراد نے شیعہ مکتب فکر کو پھیلایا اور اس مکتب پر ایمان رکھنے والے افراد کی تعداد میں روز بروز اضافہ کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ امام علیہ السلام نے یہ تمام کام چھے خلفاء کی خونچکاں شمشیروں کے سائے تلے انجام دیا!۔ حضرت امام علی نقی علیہ السلام کی شہادت کے بارے میں ایک معروف حدیث ہے جس کی عبارت سے پتہ چلتا ہے کہ سامراء میں اچھی خاصی تعداد میں شیعہ اس طرح سے اکٹھا ہو گئے تھے کہ دربار خلافت انہیں پہچان نہیں پاتا تھا، کیونکہ اگر وہ انہیں پہچان جاتا تو ان سب کو تہ تیغ کر دیتا لیکن چونکہ ان افراد نے اپنا ایک مضبوط چینل بنا لیا تھا اس لیے خلافت بھی ان لوگوں کی شناخت نہیں کر سکتی تھی۔
خلیفہ کے دربار میں جہاد اور فتح
امام ہادی علیہ السلام ایک مجاہد کی طرح متوکل کے دربار گئے اور شراب کی محفل کو ایک روحانی مجلس میں تبدیل کردیا یعنی اسے مغلوب کردیا اور امام کے کلام کے بعد متوکل امام کے لئے عطر لایا اور امام کو عزت اور احترام سے روانہ کیا وہ مقابلہ جس کا شروع کرنے والا چلاک اور قدرتمند خلیفہ تھا امام نے اس جنگ کو آسانی سے جیت لیا جس میں نیزے اور تلواریں بے فائدہ تھیں
حوالہ: امام خامنہ ای، 10 مئی 2003