فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی فضیلت کے چند جلوے! از رہبر انقلاب
خشوع کے حصول میں علم و ایمان کا کردار از امام خمینی
خشوع صرف علم و اعتقاد سے حاصل نہیں ہوتا
یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ اعتقاد و علم اور ہے اور ایمان اور۔ اسی طرح حق اور اسماء و صفات کا جو علم ہم میں پیدا ہوجاتا ہے وہ ایمان کے علاوہ کچھ اور ہے۔ شیطان، ذات مقدس حق کی شہادت کے ساتھ ہی مبدا و معاد کا علم رکھتا ہے اس کے باوجود کافر ہے، خلقتنی من نار و خلقتہ من طین کہتا ہے، لہٰذا حق تعالی کی خالقیت کا اقرار ہے۔ انظرنی الی یومِ یبعثون؛ کہتا ہے، لہٰذا معاد کا اعتقاد رکھتا ہے، کتب و رسل و ملائکہ کا علم اس کو ہے، ان تمام باتوں کے باوجود خدا نے اس کو کافر کہہ کر خطاب کیا ہے اور اہل ایمان کی فہرست سے خارج کر دیا ہے۔
اہل علم اور اہل ایمان ایک دوسرے سے الگ ہیں
لہذا اہل علم اور اہل ایمان ایک دوسرے سے الگ ہیں، ہر صاحب علم صاحب ایمان نہیں ہے۔لہذا سلوکِ علمی سے آگے بڑھ کر خود کو مومنین کے زمرہ میں شامل کرنا ضروری ہے اور حق جل جلالہ کی عظمت اور اس کے جلال و جمال کو دل میں جگہ دینا لازم ہے تا کہ قلب ’’ خاشع‘‘ ہوجائے ورنہ محض علم سے خشوع پیدا نہیں ہوتا جیسا کہ تم خود کو دیکھتے ہو کہ مبدا و معاد اور عظمت و جلال حق کے اعتقاد کے باوجود تمہارا دل خاشع نہیں ہے۔
سالک کے لئے لازم ہے کہ اپنے دل کو علم و ایمان کی روشنی سے خاضع بنائے
سالکِ طریقِ آخرت کے لئے یہ لازم ہے کہ اپنے دل کو علم و ایمان کی روشنی سے خاضع بنائے، خصوصاً نماز کے ذریعہ، اس الٰہی گداز اور رحمانی نور کو جتنا ممکن ہو دل میں متمکن اور جاگزین کرے۔ خلاصہ یہ ہے کہ جب انسان نے برہان اور دلیل سے یا انبیاء علیہم السلام کے بیانات سے جمال و جلال حق کی عظمت کو سمجھ لیا تو قلب کو اس کی یاد دہانی کرانا چاہئے اور دھیرے دھیرے تذکر و توجہ قلبی اور جلال حق کی عظمت کے ذکر کی مداومت سے خشوع پیدا کرنا چاہئے تاکہ وہ نتیجہ حاصل ہو جو مطلوب ہو۔
سالک کو کسی حال میں بھی اس مقام پر قناعت نہیں کر لینا چاہئے جس کو اس نے پا لیا ہے، کیوں کہ جو مقام بھی ہم جیسے لوگوں کو حاصل ہوجائے، اہل معرفت کے بازار میں اس کی کوئی قیمت نہیں ہوتی اور اصحاب قلوب کی نظر میں رائی کے برابر بھی نہیں ہوتا۔ سالک کو چاہئے کہ تمام حالات میں اپنے نقائص اور معایب کو دیکھتا رہے تا کہ سعادت تک پہنچنے کی کسی راہ کے کھلنے کا امکان پیدا ہوسکے۔
کتاب: آدابِ نماز از امام خمینیؒ، ص ۳۷ الی ۳۹؛ سے اقتباس