حج، ایک کثیر الجہتی عبادت اور عمل از رہبر انقلاب
حج بیت اللہ ایک کثیر الجہتی عبادت!
حج بیت اللہ ایک کثیر الجہت اور پُر مضمون فریضہ ہے۔ اس کا معنوی پہلو بھی اور مادّی پہلو بھی مختلف جہات پر مشتمل ہے۔ لیکن بندہِ حقیر کی نظر میں فریضہِ حج کے دو نکات اس کی نمایاں خصوصیات میں سے ہیں۔ ایک نکتہ انسان کی اندرونی کیفیت اور اس کے باطنی حالت سے متعلق ہے۔ روحِ انسانی کہ جو علم، معرفت اور اس کے عزم و ارادے کی پیدائش کی جگہ ہے۔ اور دوسرا اس(انسان)کی معاشرتی زندگی سے متعلق ہے۔
ذکرِ خدا، حج کا باطنی پہلو!
وہ نکتہ کہ جس کا تعلق انسان کے باطن، اس کی تربیت، اس کے اندر عزم و ارادے کی پرورش سے متعلق ہے؛ وہ ذکرِ خدا کا مسئلہ ہے۔ عبادت حج میں ذکرِ خدا ایک نہایت اہم عنصر ہے۔ آپ اس بات پہ ذرا غور کریں کہ حج کی شروعات سے لے کر اس کے اختتام تک، احرام باندھنے، احرام کے مقدمات سے لے کر عمرے کی ادائیگی تک، اس کے بعد احرامِ حج، وقوف مزدلفہ اور باقی مناسک؛ سر سے پاؤں تک ذکرِ خدا اور یادِ خدا پہ مشتمل ہیں۔ اسی لئے قرآن کریم میں اسی حج کے موضوع پہ، ذکرِ خدا کا حکم ہوا ہے۔
حج کا معاشرتی پہلو!
[حج کا]وہ نکتہ جو[اس کے]معاشرتی ماحول سے متعلق ہے، وحدت[امت مسلمہ]کا مسئلہ ہے، یگانگت کا مسئلہ ہے، [امت مسلمہ کا]ایک نظر آنے کا مسئلہ ہے، مسلمانوں کے ساتھ رابطے کا مسئلہ ہے،[حج میں] یہ ایک بہت اہم مسئلہ ہے۔ ہم نے بارھا کہا ہے، خداوند متعال نے حضرت ابراہیم(ع)کے ذریعے سے نہ فقط ایک خاص جماعت کو، بلکہ عمومی طور پہ تمام افراد کو حج کی دعوت دی وَ اَذِّن فِی النّاسِ بِالحَجّ : خداوند متعال فرما رہا ہے کہ تمام لوگوں کو، پوری بشریت کو حج کی دعوت دو!
حج میں تمام مسلمانوں کے اجتماع کا فلسفہ!
ہر سال چند مخصوص دنوں میں، مخصوص جگہ پر تمام لوگوں کو دعوت الہی دینے کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی مشیت خدا کی تشریعی مشّیت- اس حقیقت پر مبنی ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کے قریب آئیں، ایک دوسرے کو جانیں، مل کر سوچیں، اور مل کر فیصلے کریں۔ آج(اس دور میں)ہمارا(امت مسلمہ)کا ایک بڑا خلاء یہ ہے: “مل کر فیصلہ کریں”۔ ایک جگہ جمع ہوں تاکہ یہ اجتماع عالم اسلام کے ایک مطلوب و خوش آیند نتیجہ فراہم کرسکے، بلکہ پوری بشریت کے ایک مطلوب نتیجہ فراہم کر سکے، ہم اس(ہدف)کے پیچھے ہیں۔
عہد بندگی ، رہبر معظم