جناب علی اصغر ع، کربلا کے ننھے سپاہی از رہبر انقلاب
بچے کی پیاس کا تصور!
گرمی کے موسم میں کسی دن دو تین گھنٹے کیلئے بجلی چلی جائے ماں باپ کو اپنی اتنی فکر نہیں ہوگی کہ گرمی ہلکان کردے گی۔ گھر میں مرد و عورت گرمی سے اپنے پریشان ہونے اور پسینے میں ڈوپ جانے پہ فکرمند نہیں ہونگے، لیکن ماں کا دل ڈوب جائے گا جب دیکھے گی کہ اس کا نونہال، اس کا شیر خوار بچہ، گرمی کی شدت سے سو نہیں پارہا ہے، برداشت نہیں کرپا رہا ہے تو ماں کا کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے۔ اب ذرا عصر عاشورا سید الشہدا کے خیموں کی حالت دیکھئے ۔۔۔ وہ گرمی وہ پیاس وہ تشنگی اس ننہے بچے پر کیا گزر رہی ہوگی؟ کچھ ایسے بھی تھے کہ جنہوں نے اس شدید گرمی میں شب و روز پیاس کے عالم میں گزارا تھا۔
کوئی چارہ ہی نہ تھا!
یقینا انہیں اپنی فکر نہیں تھی لیکن جب وہ علی اصغرؑ کو دیکھتے تھے۔۔۔ میرے خیال میں امام حسینؑ،علی اصغرؑ کو دشمن فوج کے سامنے اس لئے لے گئے تو آپ کو یہ امید نہیں تھی کہ ان درندہ صفت افراد کو رحم آجائے گا اور پانی دیدیں گے! اصل بات یہ تھی کہ امام حسینؑ کے پاس کوئی اور چارہ ہی نہیں تھا، وہ کچھ نہیں کرسکتے تھے۔آُؑپ جب خیمےکی جانب گئے تو دیکھا کہ خیموں میں کہرام مچا ہوا ہے۔ اس معصوم بچے کی پیاس، تشنگی اور تڑپنا دیکھ کر سب بے چین ہیں۔امید بہت ہی کم تھی کہ دشمن اسے پانی پلائے گا۔وہ اگر پانی دینا چاہتے تو دے سکتے تھے۔
اس بچے پر رحم کرو!
چھ ماہ کے بچے کی پیاس بجھانے کیلئے کتنا پانی درکار ہوتا ہے!؟ اگر آدھا کوزہ پانی امام حسین ع کو دے دیتے تو علی اصغر کی پیاس بجھ جاتی! اس کمروز امید کے ساتھ امام حسین ع نے بچے کو آغوش میں اٹھایا۔۔۔ لے گئے،اسے ہاتھوں پر اٹھایا، سب کو دکھایا، اس بچے کی حالت بڑی متاثر کن تھی۔۔۔وہ حالت ہر دل کو، ہر سنگدل کو رحم کی دعوت دے رہی تھی،حضرت نے خاص طور پر رحم کا تقاضا کیا،یہ بات درست ہے کہ فرمایا إن لَم تَرحَموني فَارحَموا هذَا الطِّفلَ الرضیع یعنی اس ننھے بچے پر رحم کرو۔اس اضطراب کے موقع پر ہر باپ اپنے بچے کیلئے یہ قدم اٹھاتا ہے۔۔۔ حسین ابن علی ع کا ضمیر اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ بچے کی جان بچانے کیلئے دشمنوں سے آب طلب کریں۔اسوقت جب حسین ابن علی ع سخت اضطراب میں تھے،بڑے اضطراب میں،بڑی تکلیف کے ساتھ بچے کو ہاتھوں پر اٹھایا ہوا تھا اور کچھ بولتے جارہے تھے۔ اچانک امام نے عجیب سی چیز محسوس کی،دیکھا کہ بھوک اور پیاس کی شدت سے بے حس پڑا ہوا بچہ، اپنا سر نہیں سنبھال پا رہا تھا۔ گردن ایک طرف جھول گئی تھی وہی بچہ باپ کے ہاتھوں پر تڑپ رہا ہے۔اسی لحظے امام حسین ع نے دیکھا کہ علی اصغر ع کے گلے سے خون ابل رہا ہے!
عہد بندگی ، رہبر معظم