فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی فضیلت کے چند جلوے! از رہبر انقلاب
تقوی کا تربیتی کردار شہید حسینیؒ کی نظر میں
امیر المومنینؑ نے فرمایا ہے کہ ’’یہ تقوی تمہارے دلوں کے دردوں اور تمہارے جسموں کی بیماریوں کا علاج ہے‘‘۔ یہ کیونکر ممکن ہے؟ جی ہاں! ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ تقوی کوئی انجیکشن ہے یا تقوی کوئی گولی کا نام ہے۔نہیں! ہم یہ نہیں کہتے، لیکن آپ تقوی کے اثرات سے انکار نہیں کر سکتے۔
اگر تقوی نہ ہو تو کیا آپ کا ہسپتال ٹھیک بنے گا؟ جی نہیں!! اس لئے کہ جو ٹھیکیدار اس ہسپتال کو بنائے گا اس میں تقوی نہیں تو وہ سارا پیسہ ہضم کر جائے گا اور آپ کے لئے صحیح ہسپتال نہیں بنائے گا اور جب لوگوں کو ہسپتال کے آلات کی خریداری کے لئے سرمایہ ملے گا وہ صحیح آلات نہیں لائیں گے۔
اسی طرح اگر تقوی نہیں تو ڈاکٹر صحیح کام نہیں کرے گا۔ لیکن اگر تقوی ہے تو ڈاکٹر اپنی طر ف سے صحیح طور پر کام کرے گا۔ نرسیں صحیح طور پر دیکھ بھال کریں گی۔ وہ ٹھیکیدار جس نے ہسپتال بنایا ہے وہ صحیح طور پر اس کو بنائے گا۔
اگر تقوی نہ ہو تو انسان کھانے میں بھی افراط کرے گا اور مریض ہو جائے گا اور اسی طرح اگر تقوی نہ ہو تو انسان شہوت میں بھی افراط کرے گا اور پھر قسم قسم کی بیماریوں میں مبتلاء ہوجائے گا۔ پس
تقوی دنیاوی اور دینی سعادت کا ضامن ہے
تقوی جو مولائے کائنات علیؑ نے فرمایا ہے ’’یہ تقوی تمہارے دلوں کے دردوں اور تمہارے جسموں کی بیماریوں کا علاج ہے‘‘ یہ کسی عام شخص کی بات نہیں ہے بلکہ اس عظیم روحانی شخصیت کی بات ہے جو انسان کے اندرونی حالات سے آگاہ ہے۔ ان کو پتہ ہے کہ اس انسان کے لئے کون کونسی چیزیں مفید ہیں اور کونسی مضر ہیں۔ ہمیں اگر دنیاوی اور دینی سعادت حاصل کرنی ہے تو پھر ہمیں تقوی کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔
تقوی کا تربیتی اور اصلاحی کردار
وہ شخص جو تقوی رکھتا ہے اپنی کمائی پر اکتفا کرتا ہے، اپنے حق پر اکتفا کرتا ہے وہ ہر گز ایسانہیں کرتا کہ کہ اپنے شب و روز اس فکر میں گزارے کہ میں کس طریقے سے زیادہ کماوں، کس کی جیب کاٹوں اور مالدار بن جاوں۔ وہ ہر حال میں شکر ادا کرتا ہے۔ اس کے برعکس وہ شخص جس کے دل میں تقوی نہیں ہے تو اس کا دل پریشان ہے۔ اسے سکون حاصل نہیں ہے اور ان اعصابی بیماریوں کی وجہ سے معدہ کی تکلیف ہوجاتی ہے اور پتہ نہیں اسے کون کونسی بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں لیکن اس کے برعکس وہ شخص جو متقی و پرہیزگار ہے ان تمام بدبختیوں اور بلاوں سے بچا ہوا ہے۔
کتاب: پیام نور، ص ۲۲۷ الی ۲۳۰ ، ناشر؛ العارف اکیڈمی پاکستان؛ سے اقتباس