بصیرت، ضرورت اور اہمیت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی نگاہ میں
Previous
Next
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بصیرت کی دو سطحوں (اصولی اور واقعاتی) پر درجہ بندی فرمایی ہے۔ بصیرت کی ضرورت اور اہمیت کے بارے میں رہبر معظم انقلاب اسلامی یوں فرماتے ہیں:
بصیرت کی تعریف
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی تعبیر کے مطابق بصیرت کا مطلب یہ ہے کہ انسان حوادث و واقعات کا صحیح اور دقیق مشاہدہ کرے اوران کے بارے میں تدبر و تفکر سے کام لے اور ديگر مسائل کا غور سے مطالعہ کرے۔پس بصیرت ایسی نورانی مشعل ہے جو تاریکیوں میں راستہ دکھاتی ہے، یہ ایسا قطب نما ہے جو غبار میں ڈھکے ہوئے بیاباں میں صحیح ہدف اور صحیح سمت کا تعین کرتا ہے۔
اصولی بصیرت سے مراد
توحیدی مفاہیم کے بنیادی ادراک اور توحید پرستی پر مبنی نظریات کے سلسلے میں ضروری ہوتی ہے۔ توحیدی نقطہ نگاہ سے کائنات ایک منظم اور قانون سے مطابقت رکھنے والا مجموعہ ہے اور انسانی زندگی مکمل طور پر بامقصد اور با معنی ہے۔اس نقطہ نگاہ سے زندگی اور ہستی کا مفہوم جذاب ، خوبصورت اور بامعنی ہے اور ہر حرکت اور تلاش و کوشش پر اللہ تعالی کی طرف سےاجر و ثواب مقرر ہے اور یہی وجہ ہے کہ توحیدی نقطہ نگاہ میں مایوسی، ناامیدی اور اضطراب کا کوئی معنی اور مفہوم نہیں ہے۔اس کے برعکس مادی نقطہ نگاہ صرف شخصی مفادات اور اغراض و مقاصد تک محدود رہتا ہے اور یہ اغراض و مقاصد حاصل نہ کر پانے والے افراد مایوسی اور ناامیدی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
توحیدی نقطہ نگاہ میں مایوسی، ناامیدی اور اضطراب کا کوئی معنی اور مفہوم نہیں ہے۔اس کے برعکس مادی نقطہ نگاہ صرف شخصی مفادات اور اغراض و مقاصد تک محدود رہتا ہے اور یہ اغراض و مقاصد حاصل نہ کر پانے والے افراد مایوسی اور ناامیدی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
واقعاتی بصیرت سے مراد
رہبر معظم انقلاب اسلامی، گوناگوں واقعات و حوادث کے لئے ایک دیگرسطح کی بصیرت کی ضرورت پر زور دیتے ہیں اور بصیرت کی اس قسم کے مختلف پہلوؤں پر یوں روشنی دالتے ہیں: جب معاویہ کے لشکر نے امام اور اسلامی حاکم کے مقابلے میں لوگوں کو بہکانے اور دھوکہ دینے کے لئے قرآن مجید کو نیزوں پر بلندکیا تو بعض لوگوں نے میدان میں موجود واضح اور روشن حقائق کو نہیں دیکھا اور روشن و آشکار حقائق پر اپنی آنکھوں کو بند کردیا۔ ہمیں اپنی آنکھیں کھلی رکھنی چاہییں اور حوادث سے سرسری طور پر نہیں گزر نا چاہیے بلکہ ہمیں تفکر و تدبر اور مسائل کے صحیح ادراک کے ذریعہ بصیرت تک پہنچنا چاہیے۔ہمیں اپنی فکر و نظر میں اس قسم کی بصیرت کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ فکر و عمل دونوں کی سطح پر دائمی کامیابی اور استحکام سے ہمکنار ہو سکیں۔
بصیرت کے لیے نقصان دہ عنصر
انسان کبھی کبھی اہم ترین مسائل میں بھی غفلت کا شکار ہو جاتا ہے اور یہ لغزش کوئی گناہ نہیں ہے لیکن اگر یہ چیز معمول بن جائے تو یہ عدم بصیرت کی علامت ہے جو ناقابل قبول ہے۔
بعض افراد حقیقت سے آگاہ اور با خبر ہوتے ہیں لیکن وہ خقیقت کو بیان کرنے اور حق کا دفاع کرنےکا عزم نہیں رکھتے اور ایسے افراد میں پختہ عزم و ارادے کے نہ ہونے کی بھی کچھ وجوہات ہیں جیسے راحت طلبی، خواہشات نفسانی ، شہوت، ذاتی مفادات، ہٹ دھرمی اور ضد ایسے عوامل ہیں جو ان افراد کو حق کے دفاع سے روک دیتے ہیں۔
بصیرت حق کی تشخیص کاذریعہ ہے
حق کی تشخیص کا معیار افراد و اشخاص نہیں ہیں اور بعض اوقات اچھے اور آبرومند افراد بھی غلط راستے پر چل نکلتے ہیں چنانچہ حق و باطل کی تشخیص افراد اور اشخاص کے ذریعے نہیں بلکہ بصیرت کے ذریعے ہونی چاہیے۔
حضرت امام خمینی(رحمۃ اللہ علیہ) فرمایا کرتے تھے کہ: “اگر میں اسلام سے الگ ہوجاؤں تو لوگ مجھ سے منہ پھیر لیں گے” لہذا حق کی تشخیص کا معیار اسلام ہے اور بصیرت کے ساتھ دشمن کے ناپاک نقشوں کا ادراک کرنا چاہئے۔
انقلابیت پر کیسے قائم رہیں؟
بعض لوگ جو آج اسلامی انقلاب کے راستے سے ہٹ کر انقلاب مخالف عناصر کی خدمت کر رہے ہیں، کسی دور میں وہ بہت بڑے انقلابی اور انقلاب کے بڑے حامی ہوا کرتے تھے لیکن بعض وجوہات کی بنا پر وہ موجودہ صورت حال سے دوچار ہوگئے ہیں۔پروردگار متعال کے بارے میں غفلت اور فرائض سے روگردانی انسان کو اسی طرح کی سنگین مشکلات کا شکار بنا دیتی ہے۔
اقتباس از (قم میں جوانوں اور اساتذہ سےخطاب(
منبع
26 /Oct/ 201