فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی فضیلت کے چند جلوے! از رہبر انقلاب
ایمان کا اصلاحی کردار اور درجات از شھید مطہری
انسان ایک باختیار موجود ہے
انسان ایک باختیار موجود ہے اور اپنے کاموں کو اپنے فائدوں اور نقصانات‘ مصلحتوں اور خرابیوں کی تشخیص کی بنیاد پر انجام دیتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ ”تشخیص“ کاموں کے اختیار و انتخاب میں ایک اہم کردار ا ادا کرتی ہے۔ یہ امر محال ہے کہ انسان کسی ایسے کام کا اپنے لئے انتخاب کرے‘ جس میں اس کی اپنی تشخیص کے مطابق ایک طرف تو کسی قسم کا فائدہ نہیں ہے دوسری طرف اس میں نقصان ہی نقصان ہے مثلاً ایک عقل مند انسان جسے اپنی زندگی سے محبت ہو کبھی جان بوجھ کر اپنے آپ کو پہاڑ کی چوٹی سے نہیں گرائے گا یا مہلک زہر نہیں کھائے گا۔
ایمان کے درجات اور عصمت
لوگ اپنے ایمان اور گناہوں کے نتائج پر توجہ رکھنے کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ان کا ایمان جتنا زیادہ قوی ہو گا اور گناہوں کے خطرناک نتائج کی طرف توجہ جتنی شدید ہو گی‘ گناہوں سے وہ اتنا ہی دور رہیں گے اور کم ہی گناہ کا ارتکاب کریں گے۔پس اگر درجہ ایمان شہود و عیاں کے درجے تک پہنچ جائے یعنی اس حد تک کہ آدمی گناہ کرنے کا ارادہ کرتے وقت اپنے آپ کو اس شخص کی مانند سمجھے جو دیدہ دانستہ اپنے آپ کو پہاڑ سے گرا رہا ہے یا مہلک زہر پی رہا ہے‘ تو ایسی صورت میں ارتکاب گناہ کا امکان صفر کی حد تک پہنچ جاتا ہے یعنی وہ ہرگز گناہ کی طرف رخ بھی نہیں کرتا۔ ایسی ہی حالت کو ہم عصمت یعنی گناہوں سے محفوظ رہنا کہتے ہیں۔
محفوظ رہنے کا طریقہ
پس گناہ سے محفوظ رہنے کا تعلق کمال ایمان اور شدت تقویٰ سے ہے۔ لہٰذا انسان کو درجہ عصمت پر فائز ہونے کے لئے اس چیز کی ضرورت نہیں ہے کہ ایک خارجی اور غیبی قوت جبراً اسے گناہ سے باز رکھے یا معصوم شخص اپنی سرشت و خلقت کی بنیاد پر ایسا ہو کہ اس سے گناہ کی قوت یا خواہش ہی چھین لی گئی ہو۔ اگر کوئی انسان گناہ پر قادر ہی نہ ہو یا ایک جبری قوت اسے ہمیشہ گناہ کرنے سے باز رکھتی ہو تو اس کے لئے گناہ نہ کرنا کوئی کمال کی بات نہیں ہو گی۔
کیوں کہ ایسی صورت میں وہ ایک ایسے انسان کی مانند ہو گا جو کسی قید خانے میں بند ہو اور خلاف قانون کام کرنے پر قادر ہی نہیں ہے‘ ایسے انسان کا نافرمانی نہ کرنا اس کے نیک کردار اور امین ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا۔
کتاب: وحی اور نبوت، شہید مرتضی مطہری؛ سے اقتباس