فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی فضیلت کے چند جلوے! از رہبر انقلاب
انسان قرآن کی نگاہ میں از استاد شہید مطہری
شہید مرتضی مطہری ایک عظیم اسلامی مفکر ہیں۔ آپ انسان سے متعلق قرآنی زاویہ نگاہ کو یوں بیان کرتے ہیں :
قرآن کی نگاہ میں انسان میں یہ قوت ہے کہ وہ قوائے عالم کو مسخر کر سکتا ہے اور فرشتوں سے بھی کام لے سکتا ہے لیکن وہ اپنے برے اعمال کے سبب اسفل السافلین میں بھی گر سکتا ہے۔ انسان کی قابل تعریف صفات جو قرآن حکیم کی مختلف آیات میں ذکر ہوئی ہیں کہ
انسان ذاتی شرافت اور کرامت کا مالک ہے
خدا نے انسان کو دیگر بہت سی مخلوقات پر برتری بخشی ہے لیکن وہ اپنی حقیقت کو خود اسی وقت پہچان سکتا ہے جب کہ وہ اپنی ذاتی شرافت کو سمجھ لے اور اپنے آپ کو پستی ذلت اور شہوانی خواہشات اور غلامی سے بالاتر سمجھے۔
’’بے شک ہم نے اولاد آدم کو عزت دی اور ہم نے ان کو صحرا اور سمندر پر حاکم کر دیا اور ہم نے ان کو اپنی بہت سی مخلوقات پر برتری دی۔‘‘( سورہ بنی اسرائیل آیت ۷۰)
انسان باطنی اخلاق کا حامل ہے
وہ اپنی فطری قوت سے ہر نیک و بد کو پہچان لیتا ہے۔
’’اور قسم ہے نفس انسان کی اور اس کے اعتدال کی کہ اس کو (خدا نے) اچھی اور بری چیزوں کی پہچان دی۔‘‘( سورہ شمس آیات ۷۔۹)
انسان کی خلقت کا ہدف عبادت ہے
خدا نے انسان کو صرف اس لئے پیدا کیا کہ وہ دنیا میں صرف اپنے خدا کی عبادت اور اس کے احکام کی پابندی کرے پس اس کی ذمہ داری امر خدا کی اطاعت ہے۔
’’اور ہم نے جن اور انسان کو نہیں پیدا کیا مگر اس لئے کہ وہ میری عبادت کریں۔‘‘( سورہ حشر آیت ۱۹)
انسانی روح کو فنا نہیں ہے
انسان جونہی اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے اور اس کی روح کے چہرے سے جسم کا پردہ ہے اٹھ جاتا ہے تو اس وقت اس پر ایسے بہت سے حقائق ظاہر ہوتے ہیں جو دنیا میں اس سے پوشیدہ رہتے ہیں:’
’ہم نے تجھ پر سے پردہ ہٹا دیا تیری نظر آج تیز ہے۔‘‘(سورہ ق آیت ۲۲)
انسان معنوی اور مادی ضرورتیں رکھتا ہے
انسان دنیا میں ہمیشہ مادی مسائل کے حل کے لئے ہی کوششیں نہیں کرتا اور اس کو صرف مادی ضرورتیں ہی متحرک نہیں کرتیں بلکہ وہ بعض اوقات کسی بلند مقصد کے حصول کے لئے بھی اٹھتا ہے اور ممکن ہے کہ اس عمل سے اس کے ذہن میں سوائے رضائے خداوندی کے حصول کے اور کوئی مقصد نہ ہو۔
’’اے نفس مطمئنہ تو اپنے رب کی طرف لوٹ جا تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی۔‘‘( سورہ فجر آیات ۲۷۔۲۸)