انسانی زندگی میں دعا کا کردار از رہبر انقلاب

دعا ایمان کو قوی اور الہی وعدوں کو پورا کرتی ہے

دعا انسان کو خدا سے نزدیک کرتی ہے۔ معارف دینی کو انسان کے دل میں اثر انداز اور قائم رکھتی ہے۔ دعا ایمان کو قوی کرتی ہے یعنی دعا کئی زاویوں سے برکتوں اور رحمتوں کی حامل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں بارہا دعا اور بندگان صالح کے ذریعے کی گئی دعاؤں سے متعلق گفتگو کی گئی ہے۔ انبیائے الہی مسائل و مشکلات کے وقت خدا کی بارگاہ میں دعا کرتے تھے ۔خدا سے مدد کی التماس کرتے تھے۔ ’’فدعا ربہ انی مغلوب فانتصر‘‘ جو حضرت نوح ٴ سے منقول شدہ دعا ہے یا حضرت موسیٰ کی زبانی قرآن فرماتا ہے: ’’فدعا ربہ ان ہٰولائ قوم مجرمون‘‘ ۔
قرآن کریم میں خدا وند عالم نے متعدد آیتوں میں دعاؤں کی قبولیت اور استجابت کا وعدہ فرمایا ہے مثلاً: ’’وقال ربکم ادعونی استجب لکم‘‘ یعنی تمہارے پروردگار نے فرمایا ہے کہ مجھ سے دعا مانگو میں تمہاری دعاؤں کو مستجاب کروں گا ۔

اسی طرح ایک دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے: ’’وسئلوا اللہ من فضلہ ان اللہ بکل شئی علیماً‘‘ یعنی اگر چہ خدا عالم ہے اور ہماری حاجتوں سے آگاہ بھی ہے مگر اس کے باوجود تم خدا سے طلب کرو۔ دعائے ابو حمزہ ثمالی میں امام سجادٴ اسی طرف اشارہ فرماتے ہیں : ’’ولیس من صفاتک یا سیدی ان تامر باموال و تمنع العطیۃ‘‘ پروردگار تیری یہ صفت نہیں ہے کہ اپنے بندوں کو طلب کرنے کا حکم دے اور ان کے طلب کرنے پر انہیں عطا نہ کرے یعنی خد اکے کرم اور اس کی قدرت کا مفہوم یہ ہے کہ اگر وہ کہتا ہے کہ مجھ سے طلب کروتو در حقیقت اس نے ارادہ کر لیا ہے کہ استجابت بھی کرے۔

’’واذا سئلک عبادی عنی فانی قریب اجیب دعوۃ الداع اذا دعان‘‘ ۔یعنی جب بھی میرے بندے آپ سے میرے بارے میں سوال کریں تو اے پیغمبر آپ کہدیجئے کہ میں ان کے قریب ہی ہوں ان کی دعاؤں کو سنتا اور استجاب کرتا ہوں۔

دعا کی قبولیت کی شرط

اگر کوئی شخص خدا سے کچھ طلب کرتا ہے تو فوراً اس کو حاصل ہو جاتا ہے: ’’بکل مسئلۃ منک سمع حاضر و جواب عتید‘‘ یہ خدا کا قطعی اور سچا وعدہ ہے یعنی خدا ہر طلب و دعا کا جواب دیتا ہے لیکن اس وعدے کے ساتھ کچھ شرائط بھی ہیں جن میں سے ایک عمل صالح ہے: ’’من عمل صالحاً فلنفسہ و من اساء فعلیہ‘‘ ۔

 

 

 

ہدف تک پہنچنے کا قرآنی اصول

قرآن مجید میں خدا نے اپنے بندوں سے جا بجا وعدے فرمائے ہیں۔ مثلاً: ’’انا لا نضیع اجر من احسن عملاً‘‘ یعنی جو شخص کار خیر انجام دیتا ہے خدا اس کی جزا اور اجر کو ضائع نہیں کرتا ہے۔ ایک جگہ فرماتا ہے: ’’من کان یرید العاجلۃ عجلنا لہ فیھا ما نشاء لمن یرید‘‘ یعنی کوئی انسان دنیا کو اپنا ہدف بنا لے تو ہم اس کے ہدف تک رسائی میں اس کی مدد کرتے ہیں لیکن کب ؟ جب وہ کوشش کرے ، جستجو کرے اقدام کرے اور آگے بڑھے ۔ اس کے بعد فرماتا ہے: ’’و من اراد الآخرۃ و سعی لھا سعیھا و ہو مومن فاولئک کا ن سعیہم مشکوراً‘‘ اس آیت میں فرماتا ہے کہ جو لوگ آخرت کی خواہش کرتے ہیں اور اس سلسلہ میں سعی و کوشش کرتے ہیں ہم ان کی بھی مدد کرتے ہیں۔
ایک آیت میں دنیا کا تذکرہ ہے اور دوسری میں آخرت کا اور دونوں میں شرط یہ ہے کہ سعی و کوشش کی جائے۔ اگر انسان سعی و کوشش کرے تو خدا وند عالم یقینا اسے اس کے مقصد تک پہنچاتا ہے۔ یہ سنت الہی ہے۔ خدا کسی کی بھی زحمتوں اور کوششوں کو رائیگاں نہیں جانے دیتا۔

کتاب: اخلا ق و معنویت، رہبر معظم سید علی خامنہ ای سے اقتباس

 

متعلقہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *