فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی فضیلت کے چند جلوے! از رہبر انقلاب
اسلام اور مادی علوم امام خمینیؒ کی نگاہ میں از امام خمینی
مغربی اور اسلامی یونیورسٹیوں میں بنیادی فرق
مغربی اور اسلامی یونیورسٹیوں میں بنیادی فرق ان کے نظام تعلیم اور نصاب میں ہونا چاہئے کہ جسے اسلام نے یونیورسٹیوں کے لئے پیش کیا ہے۔ مغربی یونیورسٹیاں خواہ کسی بھی علمی مرتبے تک پہنچ جائیں وہ طبیعت اور فطرت کو سمجھ تو سکتی ہیں لیکن اسے مہار نہیں کر سکتی۔ اسلام طبیعی اور مادیت سے مربوط علوم پر جداگانہ نظر نہیں رکھتا ہے۔ تمام طبیعی اور مادی علوم خواہ کسی بھی مرتبے تک پہنچ جائیں تب بھی وہ مقام حاصل نہیں کر سکتے جو اسلام کو مطلوب ہے۔ اسلام فطرت کو حقیقت کےلئے مہار کرتا ہے اور تمام چیزوں کو وحدت اور توحید کی طرف لے جاتا ہے۔
مادی علوم کتاب عالم کا ایک معمولی ورق ہے
وہ تمام علوم کہ جن کا آپ ذکر کرتے ہیں اور بیرونی ممالک کی یونیورسٹیاں بھی ان کا تذکرہ کرتی ہیں، تعریف کے قابل ہیں لیکن یہ سب کتاب عالم کا ایک ورق ہے وہ بھی دیگر اوراق سے معمولی سا ورق۔ عالم اپنے خیر مطلق کے مبدا و آغاز سے لے کر انجام تک ایک ایسا موجود ہے کہ اس کا طبیعی اور فطری حصہ بہت کم اور پست ہے۔ تمام مادی علوم الٰہی علوم کے مقابلے بہت سطحی ہیں جس طرح تمام مادی اور طبیعی موجودات، خدائی موجودات کے مقابلے میں بہت پست ہیں۔
توحیدی مکتب اور دیگر مکاتب کے درمیان کہ جن میں سب سےعظیم مکتب اسلام ہے، فرق یہ ہے کہ اسلام اسی طبیعت اور مادیت کے ساتھ ایک اور معنی کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہے، اسی علم طب میں ایک اور معنی اسلام کے پیش نظر ہے، علم جیومیٹری میں اسلام ایک اور باب کھولنا چاہتا ہے، علم نجوم میں اسلام کی خواہش ہے کہ اسے ایک اور پہلو سے دیکھا جائے۔۔۔۔۔۔۔
علوم کے بارے قرآنی نقطہ نظر
اگر کوئی قرآن شریف میں اس معنی کا مطالعہ کرے تو وہ دیکھے گا کہ قرآن میں ان تمام مادی علوم اور طبیعی علوم کے روحانی پہلووں کو بیان کیا گیا ہے نہ کہ فقط ان کے مادی پہلووں کو۔ وہ تمام امور کہ جن کی جانب قرآن نے تعقل اور تفکر کی دعوت دی ہے اور یہ جو امر دیا گیا ہے کہ تمام محسوسات کو تعقل کی نگاہ سے دیکھئے، یہ عقل و عقلانیت کا عالم ایک ایسا عالم ہے جو اصالت و حقیقت رکھتا ہے جبکہ یہ طبیعت و مادیت کا عالم صرف ایک سایہ ہے اور جب تک ہم اس مادیت میں ہیں عالم کے اس پست ترین سائے کو ہی دیکھتے (اور اسے حقیقت سمجھتے) ہیں۔
کتاب: امام خمینی کی نگاہ میں تعلیم و تربیت،ص 43 الی 44 ؛ سے اقتباس