فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی فضیلت کے چند جلوے! از رہبر انقلاب
اسلامی حاکم کی شرائط امام خمینی کی نگاہ میں
امام خمینیؒ اسلامی حاکم کے لیے دو شرطوں کو ضروری جانتے ہیں۔ اس حوالے سے کچھ اہم مطالب قارئین کی خدمت میں پیش کئے جارہے ہیں۔
پہلی شرط: اسلامی قانون کے بارے میں علم کا حامل ہونا۔
رسول اکرم(ص) اور ہمارے آئمہ (ع) کے زمانے میں اس بارے میں بحث ہوتی رہی ہے کہ اوّلا حاکم اور خلیفہ کو اسلام کے احکام کے بارے میں معلومات ہونی چاہیے یعنی اسے اسلامی قانون کا ماہر ہونا چاہیے۔
چونکہ اسلام کی حکومت قانون کی حکومت ہے لہذا رہبر اور حاکم کیلئے قانون کے بارے میں علم و آگاہی ضروری ہے۔ ہمارے آئمہ (ع) اپنی امامت کیلئے اسی مطلب کو استدلال کے طور پر پیش کرتے تھے کہ امام کو دوسروں سے افضل ہونا چاہیے۔
دلیل اول: چونکہ اسلام کی حکومت قانون کی حکومت ہے لہذا رہبر اور حاکم کیلئے قانون کے بارے میں علم و آگاہی ضروری ہے۔ ہمارے آئمہ (ع) اپنی امامت کیلئے اسی مطلب کو استدلال کے طور پر پیش کرتے تھے کہ امام کو دوسروں سے افضل ہونا چاہیے۔
شیعہ علماء نے دوسروں پر جو اعتراضات وارد کئے ہیں وہ بھی اسی امر سے متعلق ہیں کہ جب فلاں حکم کے بارے میں خلیفہ سے معلوم کیا گیا تو خلیفہ اسکا جواب نہ دے سکے پس وہ امامت اور خلافت کے لائق و سزاوار نہیں ہے۔
دلیل دوم: عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جو رہبر قانونی مطالب سے آگاہ نہ ہو وہ حکومت کے لائق وسزاوار نہیں ہوسکتا کیونکہ اگر وہ تقلید کرے گا تواس سےحکومت کی طاقت وقدرت کمزور ہو جائے گي اور اگر تقلید نہیں کرےگا تو اسلام کے قانون کاحاکم اور مجری نہیں بن سکتا اور یہ بات مسلّم ہے کہ « الفقہاء حکام علی السلاطین» ” فقہاء سلاطین پر حاکم ہیں ” (مستدرک الوسائل ج17ص321،کتاب القضاۃ)،(ابواب صفات قاضی، باب 11، حدیث33)۔ لہذا ضروری ہے کے حاکمیت سرکاری طور پر فقہاء کے ہاتھ میں رہے نہ کہ ان لوگوں کے ہاتھ میں رہنی چاہیئے جو نادانی اور جہل کی بنا پر فقہاء کی پیروی کرنے پر مجبور ہیں۔
حاکم کو عادل ہونا چاہیے
جو شخص حدود الہی یعنی اسلامی سزاؤوں کوجاری کرے گا اور حکومت کا نظام اپنےہاتھ میں لے گا، خداوندمتعال اسکواپنے بندوں پرحکومت کا اختیار بخشےگا اسکو گناہکار اور بد کردار نہیں ہونا چاہیے ( و لا ینال عہدی الظالمین ) خداوند ظالم اور گنہکار کو ایسا حق و اختیار عطا نہيں کرتاہے۔( سورہ بقرہ/124)
دوسری شرط: حاکم کو عادل ہونا چاہیے
جو شخص حدود الہی یعنی اسلامی سزاؤوں کوجاری کرے گا اور حکومت کا نظام اپنےہاتھ میں لے گا، خداوندمتعال اسکواپنے بندوں پرحکومت کا اختیار بخشےگا اسکو گناہکار اور بد کردار نہیں ہونا چاہیے ( و لا ینال عہدی الظالمین ) خداوند ظالم اور گنہکار کو ایسا حق و اختیار عطا نہيں کرتاہے۔( سورہ بقرہ/124)
حاکم اگرعادل نہیں ہوگا تواس صورت میں ممکن ہے مسلمانوں کے بیت المال کو اپنے ذاتی اغراض و مقاصد کیلئے مصرف کرنے میں مشغول ہوجائے۔
صدر اسلام میں دو ادوار میں دو مرتبہ اسلام کی اصلی حکومت محقق اور قائم ہوئی ہے ایک مرتبہ پیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے دور میں اوردوسری مرتبہ حضرت علی (علیہ السلام) کے دور میں جب وہ کوفہ میں حاکم تھے۔
ان دو ادوار میں عدل و انصاف پر مبنی حکومت بر قرار تھی اور حاکم ایک ذرہ برابر بھی قانون کے خلاف عمل نہیں کرتا۔
اقتباس ازکتاب ولایت فقیہ امام خمینی ص 61-58