ازدواجی زندگی کے سنہرے اصول از رہبر انقلاب

مشترکہ زندگی میں کاموں کی تقسیم

جب دو انسان کسی ایک کام میں شریک ہوتے ہیں اور رشتہ ازدواج میں منسلک ہو کر اپنی مشترکہ زندگی کا آغاز کرتے ہیں تو بہت سی ایسی ذمے داریاں ہیں جو ان کے درمیان مشترک ہوتی ہیں جو گھر کی گاڑی چلانے اور مختلف قسم کی مدد و اعانت سے عبارت ہیں اور جو گھر کو خوشحال آباد بنانے میں بہت موثر کردار ادا کرتی ہیں لہٰذا دونوں کو چاہیے کہ اِس سلسلے میں ایک دوسرے کی مدد کریں۔یہ کام دونوں کے درمیان مشترک ہیں لیکن ان کاموں کوتقسیم ہونا چاہیے۔

کبھی کبھی یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ میاں بیوی اپنے کاموں کو تقسیم نہیں کرتے ہیں لیکن بہتر یہ ہے کہ کاموں کو اس طرح تقسیم کیا جائے کہ بعض کاموں کو مرد اور بعض کاموں کو بیوی انجام دے بالکل دوسرے کاموں میں مدد و تعاون کی طرح۔

میاں بیوی ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں
ایک اچھا گھر وہی ہے جہاں میاں بیوی ایک دوسرے کی مدد کریں اور ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں ۔اگر شوہر کسی مشکل یابُرے حالات کا شکار ہو تو بیوی کو چاہیے کہ وہ اس کی پریشانی کا بوجھ ہلکا کرے ۔یا اگر گھر کے کاموں میں یا اپنے دیگر امور میں بیوی کو دشواری کا سامنا ہو تو شوہر کو اس کی دشواری کو دور کرنے میں پوری کوشش کرنی چاہیے۔ دونوں کو چاہیے کہ ایک دوسرے کے مستقبل کی مثبت تعمیر کے لئے خود کو شریک قرار دیں اور ان تمام کاموں کو خدا کے لئے انجام دیں۔

ایک دوسرے کو روحی طور پر مضبوط بنایئے

ایک دوسرے کی مدد کے معنی یہ نہیں ہیں کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے کام انجام دینے لگیں، نہیں! بلکہ انہیں چاہیے کہ ایک دوسرے کی ہمت بندھائیں اور روحی و باطنی طور پر ایک دوسرے کو مضبوط کریں۔ چونکہ مرد حضرات معاشرے میں معمولاً مشکل اور سخت کاموں کو انجام دیتے ہیں لہٰذا خواتین کو چاہیے کہ وہ ان کے حوصلوں کو بلند کریں ،ان کے جسم و جان سے خستگی اور تھکاوٹ کو دور کریں، تبسم سے ان کا استقبال کریں اور مسکراتے لبوں کے ساتھ ان کی خوشی کا انتظام کریں ۔اگر خواتین گھر سے باہر کسی کام کو انجام دیتی ہیں تو مردوں کو چاہیے کہ ان کی مدد کریں اور ان کی مضبوط پناہ گاہ بنیں ۔

مدد اور تعاون سے مراد روحی مدد اور ایک دوسرے کے حوصلوں اور ہمتوں کو بلند کرنا ہے، بیوی کو چاہیے کہ وہ اپنے شوہر کی ضرورتوں، اندرون اور بیرونِ خانہ اس کی فعالیت اور اس کی جسمانی اور فکری حالت کو درک کرے ۔ ایسا نہ ہو کہ بیوی کے کسی فعل سے مرد اپنے اوپر نفسیاتی دباو اور شرما شرمی محسوس کرے ۔شریکہ حیات کو چاہیے کہ وہ کوئی ایسا کام انجام نہ دے کہ جس سے اس کا شوہر زندگی سے مکمل طور پر ناامید اور مایوس ہو جائے اور خدا نخواستہ غلط راستوں اور عزت و ناموس کو زک پہنچانے والی راہوں پر قدم اُٹھالے۔


زندگی کے ہر گام اور ہر موڑ پر ساتھ دینے والی شریکہ حیات کا فرض ہے کہ وہ اپنے شوہر کو زندگی کے مختلف شعبوں میں استقامت اور ثابت قدمی کے لئے شو ق و رغبت دلائے۔ اگر اس کی نوکری اس طرح کی ہے کہ وہ اپنے گھر کو چلانے میں اپنا مناسب و صحیح کردار ادا نہیں کر پا رہا ہے تو اس پر احسان نہ جتائے اور اسے طعنے نہ دے۔

یہ بہت اہم باتیں ہیں۔ یہ ہیں خواتین کے وظائف۔ اسی طرح شوہر کی بھی ذمے داریاں ہیں کہ وہ بیوی کی ضرورتوں کا خیال رکھے، اس کے احساسات کو سمجھے اور کسی بھی حال میں اس کے حال سے غافل نہ ہو۔

کتاب: طُلوعِ عشق از رہبر معظم سید علی خامنہ ای؛ سے اقتباس

 

متعلقہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *