فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی فضیلت کے چند جلوے! از رہبر انقلاب
اخلاق کے استحکام میں ایمان کا کرادر از شھید مطہری
انسان میں عدالت اور اخلاق پر ایمان کب پیدا ہوتا ہے؟
جو چیز اخلاق اور عدالت کی پشت پناہ اور ضمانت ہے اور جو اگر انسان میں پیدا ہوجائے تو انسان با آسانی اخلاق اور عدالت کے راستے پر قدم بڑھا سکتا ہے اور اپنے نفع اور مفاد سے دستبردار ہو سکتا ہےوہ صرف ’’ایمان‘‘ ہے۔ البتہ کونسا ایمان؟ جی ہاں خود عدالت پر ایمان، خود اخلاق پر ایمان۔ انسان میں عدالت پر ایک مقدس امر کے طور پر اور اخلاق پر ایک مقدس امر کے طور پر ایمان کب پیدا ہوتا ہے؟ یہ ایمان اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ تقدس کی اصل و اساس یعنی ’’ خدا‘‘ پر ایمان رکھتا ہو۔لہٰذا انسان عملاً اتنا ہی عدالت کا پابند ہوتا ہے جتنا خدا کا معتقد ہوتا ہے، عملاً اتنا ہی اخلاق کا پابند ہوتا ہے جتنا خدا پر ایمان رکھتا ہے۔
ہمارے دور کی اہم مشکل!
ہمارے دور کی مشکل یہی ہےکہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ’’علم‘‘ کافی ہے۔ یعنی با اخلاق اور عادل ہونے کے لئے ہمارا اخلاق اور عدالت سے واقف ہونا اور علم رکھنا ہی کافی ہے۔ لیکن تجربے نے یہ بتا یا ہے کہ اگر علم سے ایمان کا رشتہ ٹوٹا ہوا ہو تو یہ عدالت اور اخلاق کے لئے نہ صرف مفید نہیں بلکہ مضر بھی ہے۔لیکن اگر ایمان پیدا ہوجاتا ہے تو اخلاق اور عدالت میں استحکام آجاتا ہے۔مذہبی ایمان کے بغیر اخلاق اور عدالت ایسے ہی ہے جیسے بغیر ضمانت کے کرنسی نوٹوں کا جاری کر دینا،جب مذہبی ایمان آجاتا ہے اخلاق و عدالت بھی آجاتے ہیں۔
یہیں پہنچ کر ہمیں نظر آتا ہے کہ اسلام نے خدا کی پرستش اور عبادت کو اخلاق اور عدالت سے جدا ایک ایک علیحدۃ مسئلہ قرار نہیں دیا۔ یعنی جس عبادت کا اسلام حکم دیتا ہے اس کی چاشنی اخلاق اور عدالت کو قرار دیتا ہے۔ یا یہ کہیں کہ جس عدالت اور اخلاق کو تجویز کرتا ہے اس کی چاشنی عبادت کو قرار دیتا ہے کیونکہ اس کے بغیر یہ ممکن نہیں۔
آپ کو کہاں، اور دنیا میں پائے جانے اوالے مکاتب و ادیان میں سے کس مکتب اور دین میں یہ بات نظر آتی ہے کہ ایک مجرم خود اپنے قدموں سے چل کر آئے اور اپنے آپ کو سزا کے لئے پیش کرے۔مجرم تو ہمیشہ سزا سے بچنے کی کو شش کرتا ہے۔ وہ واحد قدرت جو مجرم کو خود اپنے قدموں پر چلا کے اور اپنے ارداے اور اختیار سے سزا کی طرف لاتی ہے وہ ایمان کی طاقت ہے۔ اسکے سوا کوئی اور چیز ایسا نہیں کر سکتی۔
جب ہم اسلام کے ابتدائی دور پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ایسی بکثرت مثالیں نظر آتی ہیں۔ البتہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اسلام کے ابتدائی دور میں، تو اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ اس ابتدائی دور کےسوا کسی اور دور میں ایسی مثالیں نہیں ملتیں۔ نہیں، صدر اسلام کے علاوہ دوسرے ادوار میں بھی لوگوں میں پائے جانے والے ایمان کے تناسب سے ایسی مثالیں موجودہیں۔
ایمان اور مذہب کی طاقت
اسلام قاضی اور حاکم کو اس بات کا پابند نہیں کرتا کہ وہ مجرم کو تلاش کرنے کے لئے جاسوسی کریں، تجسس کریں۔ بلکہ مجرم کے دل میں ایک طاقت ڈال دیتا ہے جس کے اثر سے وہ خود اپنے آپ کو سزا کے لئے پیش کرتا ہے۔ یہ ایمان اور مذہب کی طاقت ہے جو انسان کے ضمیر کی گہرائیوں میں اثر انداز ہو کر اسے عدالت اور اخلاق کے سامنے جھکا دیتی ہے۔
عبادت، انسان کی ایمانی حیات کی تجدید کے لئے ضروری!
عبادت اس لئے ہے تا کہ انسان کی ایمانی حیات کی تجدید ہو، اس کا ایمان تازہ ہو، اس میں طراوت اور نشاط پیدا ہو اور وہ قوت اور طاقت حاصل کرے۔ جتنا انسان کا ایمان زیادہ ہوگا اتنا وہ خدا کو یاد رکھے گا اور جتنا انسان کو خدا یاد رہے گا اتنا وہ گناہ کا کم مرتکب ہوگا۔ گناہ اور نافرمانی کرنے یا نہ کرنے کا دارمدار علم پر نہیں ہے، اس کا دار و مدار غفلت اور یاد پر ہے۔ جتنا انسان غافل ہوگا؛ یعنی اس نے جتنا خدا کو فراموش کر دیا ہوگا اتنا ہی زیادہ وہ گناہ کا ارتکاب کرے گا اور زیادہ زیادہ وہ خدا کو یاد رکھے گا اتنی ہی اس کی نافرمانیاں کم ہوں گی۔
کتاب: عبادت و نماز، ص ۳۸ الی ۴۳، از شہید مطہری؛ سے اقتباس