فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی فضیلت کے چند جلوے! از رہبر انقلاب
ائمہ معصومین ع کا بنیادی ہدف اور حکمت عملی
معصومین ع کی معاشرتی زندگی کا بنیادی ہدف اسلامی حکومت کی تشکیل تھا جس کےحصول کے لیے زمان و مکان کی شرائط کو سامنے رکھتے ہوئے جدوجہد جاری رکھی۔ رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای اس بارے میں یوں فرماتے ہیں :
جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں ۴۰ ء ہجری میں امام حسن علیہ السلام کی صلح کے بعد سے کبھی پیغمبر اسلام (ص) کے اہل بیت علیہم السلام اس بات پر راضی نہ ہوئے کہ فقط گھر میں بیٹھے اپنے ادراک کے مطابق احکامات الٰہیہ کی تشریح وتفسیر کرتے رہیں بلکہ صلح کے آغاز ہی سے تمام ائمہ طاہرین علیہم السلام کا بنیادی موقف اور منصوبہ یہ رہا ہے کہ وہ اپنے طرز فکر کے مطابق حکومت اسلامی کے لئے راہیں ہموار کریں چنانچہ یہ فکر خود امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی زندگی اور کلام میں بطور احسن ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔
اہل بیتؑ کا موقف اور پلان
اہل بیت علیہم السلام اس بات پر راضی نہ ہوئے کہ فقط گھر میں بیٹھے اپنے ادراک کے مطابق احکامات الٰہیہ کی تشریح وتفسیر کرتے رہیں بلکہ صلح کے آغاز ہی سے تمام ائمہ طاہرین علیہم السلام کا بنیادی موقف اور منصوبہ یہ رہا ہے کہ وہ اپنے طرز فکر کے مطابق حکومت اسلامی کے لئے راہیں ہموار کریں۔
صلحِ امام حسنؑ اور تنگ نظری
امام حسن علیہ السلام نے معاویہ سے صلح کرلی تو بہت سے ناعاقبت اندیش کم فہم افراد نے حضرت علیہ السلام کو مختلف عنوان سے ہدف بنالیا اور اس سلسلہ میں آپ کو مورد الزام قرار دینے کی کوشش کی گئی کبھی تو آپ (ع) کو مومنین کی ذلت ورسوائی کا باعث گردانا گیا اور کبھی یہ کہا گیا کہ آپ نے معاویہ کے مقابلہ پر آمادہ جوش وخروش سے معمور مومنین کی جماعت کوذلیل وخوار کردیا معاویہ کے سامنے ان کا سر جھک گیا۔
امام علیہ السلام ان تمام اعتراضات اور زبان درازیوں کے جواب میں انھیں مخاطب کرکے ایک ایسا جامع و مانع جملہ ارشاد فرماتے تھے جو شاید حضرت کے کلام میں سب سے زیادہ فصیح و بلیغ اور بہتر ہو ۔ آپ (ع) کہا کرتے تھے کہ : ما تدری لعلہ فتنۃ لکم و متاع الیٰ حین“ تمھیں کیا خبر شائد یہ تمھارے لئے ایک آزمائش اور معاویہ کے لئے ایک عارضی سرمایہ ہو ۔ اصل میں یہ جملہ قرآن کریم سے اقتباس کیا گیا ہے۔
اس جملہ سے صاف پتہ چلتا ہے کہ حضرت کو مستقبل کا انتظار ہے اور وہ مستقبل اس کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوسکتا کہ امام علیہ السلام کے نظر یہ کے مطابق حق سے منحرف موجودہ ناقابل قبول حکومت برطرف کی جائے اور اس جگہ آپ کی پسندیدہ حکومت قائم کی جائے جبھی تو آپ ان لوگوں سے فرماتے ہیں کہ تم فلسفہ صلح سے واقفیت نہیں رکھتے تمھیں کیا معلوم کہ اسی میں مصلحت مضمر ہے۔
یہی وجہ ہے کہ امام حسن علیہ الصلوٰۃ و السلام کا کام نہایت ہی عمیق ،دیر پا اور بنیادی قسم کا تھا ۔دس برس تک حضرت (ع) اسی ماحول میں زندگی بسر کرتے رہے ۔ لوگوں کو اپنے قریب کیا اور انھیں تربیت دی ۔کچھ لوگوں نے مختلف گوشہ و کنار میں جام شہادت نوش کرکے معاویہ کی حکومت سے کھل کر مقابلہ کیا اور نتیجہ کے طور پر اس کی مشینری کو کافی کمزور بنایا ۔
صلحِ امام حسنؑ کی افادیت
امام علیہ السلام ان تمام اعتراضات اور زبان درازیوں کے جواب میں انھیں مخاطب کرکے ایک ایسا جامع و مانع جملہ ارشاد فرماتے تھے جو شاید حضرت کے کلام میں سب سے زیادہ فصیح و بلیغ اور بہتر ہو ۔ آپ (ع) کہا کرتے تھے کہ : ما تدری لعلہ فتنۃ لکم و متاع الیٰ حین“ تمھیں کیا خبر شائد یہ تمھارے لئے ایک آزمائش اور معاویہ کے لئے ایک عارضی سرمایہ ہو ۔
اہل بیتؑ کا مشترکہ ہدف اور حکمت عملی
اس کے بعد امام حسین علیہ السلام کا زمانہ آیا تو آپ (ع) نے بھی اسی روش پر کام کرتے ہوئے مدینہ ،مکہ نیز دیگر مقامات پر اس تحریک کو آگے بڑھایا ۔ یہاں تک کہ معاویہ دنیا سے چلا گیا ،اور کربلا کا حادثہ رو نما ہوا۔ اسلامی حکومت کی تشکیل تمام ائمہ کا مقصد و ہدف رہا ہے ، وہ ہمیشہ اسی راہ پر گامزن رہے ہر ایک نے وقت اور حالات کے تحت اس راہ میں اپنی کوششیں جاری رکھیں۔چنانچہ جب کربلا کا حادثہ رونما ہوا اور سید الشہداء امام حسین علیہ الصلوٰة و السلام شہید کر دیئے گئے نیز بیماری کی حالت میں ہی امام سجاد علیہ السلام کو اسیر بنا لیا گیا تو حقیقتا اسی وقت سے امام سجاد علیہ السلام کی ذمہ داریوں کا آغاز ہو گیا ۔
امام زین العابدینؑ اور بقیہ آئمہؑ کی جدوجہد کا محور
اب تک مستقبل ( حکومت اسلامی کی تشکیل ) کی جو ذمہ داری امام حسن علیہ السلام اورپھر امام حسین علیہ السلام کے کاندھوں پر تھی وہ امر امام زین العابدین علیہ السلام کے سپرد کر دیا گیا اب آپ (ع) کی ذمہ داری تھی کہ اس مہم کو آگے بڑھائیں اور پھر آپ (ع) کے بعد دوسرے ائمہ طاہرین علیہم السلام اپنے اپنے دور میں اس مہم کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔
کتاب امام زین العابدین (ع)کی زندگی از حضرت آيت اللہ العظميٰ خامنہ اي سے اقتباس