نماز بندے اور خدا کے درميان رابطہ از رہبر انقلاب

نماز اپنے وجود سے آگاہ ہونے اور اسے حاصل کرنے کا نظام ہے

نماز معبود حقيقي کي بارگاہ ميں دل کي گہرائيوں کے ساتھ سر جھکانا اور انسان و خدا کے درميان ربط قائم کرنا ہے اس رابطہ کا تعلق پيدا کرنے والے اور پيدا ہونے والے سے ہے۔نماز تسلي دينے کے ساتھ ساتھ ہمارے پريشان اور تھکے ہوئے خستہ حال دلوں کو آرام و سکون عطا کرتي ہے۔ نماز ہمارے باطن کو صاف ، آلودگي سے پاک اور نور خدا سے روشن کرتي ہے۔نماز بندے کا خدا سے عہد و پيمان ہے، نماز خدا کے راستے پر چلنے کے لئے تحريک پيد اکرنے والي ہے اور اس حالت کے لئے آمادہ کرتي ہے جو دھوکہ اور فريب سے پاک ہے۔ ہم نماز پڑھتے ہيں تاکہ ہر برائي و بدي کو دور کريں اور اس کے ذريعے سے ہر خير و خوبي اور جمال ملکوتي کو حاصل کريں۔نماز اپنے وجود سے آگاہ ہونے اور اسے حاصل کرنے کا نظام ہے۔

مختصر يہ کہ نماز اس ذات سے رابطہ قائم کرنے اور مسلسل فائدہ حاصل کرنے کا نام ہے جو تمام کمالات کا سر چشمہ ہے۔ نماز اس ذات سے رشتہ جوڑنا ہے جو تمام خوبيوں اور نيکيوں کا خالق ہے يعني خدا۔ ہمارے ذہنوں ميں اکثر يہ سوال پيدا ہوتا ہے کہ نماز کو اہم ترين واجبات ميں کيوں شمار کيا جاتا ہے؟ کيا وجہ ہے کہ نما زکات دين کي بنياد قرار ديا گيا ہے؟ کيا وجہ ہے کہ نماز کو اس قدر اہميت دي گئي ہے کہ ارشاد ہوا کہ اگر نماز قبول نہيں ہوئي تو کوئي عمل قبول نہيں ہوگا!
دوسري تمام عبادات کے مقابلے ميں آخر نماز ميں کيا خاص چيز ہے جس کي وجہ سے وہ تمام عبادات ميں سر فہرست ہے؟ اور وہ کيا را ز ہيں جن کے پيش نظراسلام نماز کو بہت اہميت کے ساتھ بيان کرتا ہے؟ ہم اسلام ميں نماز کي غير معمولي اہميت کے پيش نظر اس کے مختلف پہلووں کي طرف توجہ کرسکتے ہيں مختلف کيفيات سے اس کي تحقيق اور مختلف زاويوں سے اس کے حقائق تک رسائي حاصل کرسکتے ہيں چنانچہ ہم ابتدا ہي ميں اس نکتے کي جانب اشارہ کريں گے کہ خلقت انسان کي اصلي غرض اور اس کي زندگي کا حقيقي ہدف کيا ہے؟

انسان کے کمال کا راستہ

قادر مطلق جس کي ذات حکمت والي ہے ۔۔ ہم نے انسانوں کو پيدا کرکے وجود جيسي نعمت سے مالا مال کيا ہے۔۔۔ تو لازماً اس کے معني يہ ہيں کہ خداوند عالم نے ہماري پيدائش وجود سے ہمارے لئے ايک ہدف و مقصد مقرر کيا ہے اسے ہم يوں بيان کرسکتے ہيں کہ ہميں ايک مقرر کردہ راستے پر چلنا ہے تاکہ ہم اپني منزل و مقصد تک پہنچ سکيں، وہ تراستہ اپني اہميت کے سبب باريک ہے اوراس کے وسائل بھي معين شدہ ہيں۔
اس لحاظ سے ہميں چاہئيے کہ ہم اس راستے کي معرفت حاصل کريں جو ہماري منزل تک جاتا ہے اور ساتھ ساتھ يہ بھي سمجھيں کہ وہ مطالب و مقاصد کيا ہيں جن کو حاصل کرنے کے لئے اس راستے پر چلنا ضروري قرار ديا گيا ہے تاکہ اپنے راستے اور مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے ہم اس نتيجے پر پہنچيں کہ جس کا خداوند عالم نے وعدہ فرمايا ہے۔
پس جو شخص اس راستے پر قدم اٹھالے تو اسے چاہئيے کہ وہ صرف اپنے مقصد تک پہنچنے کے لئے کوشش کرے لہذا جب انسان کو اپنے مقصد تک جانے والي راہ کي اہميت کا اندازہ ہوگا تو اسے يہ خيال ہوگا کہ اس راستے ميں انحرافات اور اس کے عزم و ارادے کو کمزور اور متزلزل کرنے والے خيالات کہيں اسے اپنے جال ميں پھنسا کر راہ مستقيم سے ہٹا نہ ديں۔

چنانچہ اسے اپنے ہدف و مقصد کو پانے کي جدوجہد کو جاري رکھنے اور کم ہمتي اور حوصلہ شکني سے اس کي حفاظت کرنے کے لئے رہبر و ہادي کے احکامات سے ہدايات حاصل کرنے کي ضرورت ہے چنانچہ وہ رہبر اول کہ جس نے انسانوں کو ان کے ہدف و مقصد تک پہنچانے کے لئے راستہ مقرر کيا يعني خدا کے پيغمبر کي تعليمات سے ذرہ برابر منہ نہ موڑے اور وہ ان کے مرتب کردہ اصول و قوانين سے ہرگز انحراف نہ کرے۔
وہ مقصد کہ جو انسان کا مقام کمال ہے کتنا ارفع و اعليٰ ہے، يہي ہے کہ انسان کو اس دنيا سے واپس خدا کي طرف جانا ہے جس کے لئے نماز کو مقرر کيا گيا ہے۔

انسان کي پيدائش کا ہدف یہ ہے کہ وہ نيکي کے راستے پر گامزن ہو

انسان کي پيدائش کي اصلي غرض يہي ہے کہ وہ نيک صفات جو انسان ميں پوشيدہ ہيں ظاہر ہوں اور باطن ميں پنہاں کمالات جلوہ افروز ہوں تاکہ انسان کي تمام صلاحيتيں اور کمالات عملي ہوجائيں اور وہ نيکي کے راستے پر گامزن ہو کر اپني ذات، تمام دنيا اور تمام انسانيت کو نيک بنائے۔ ليکن لازم ہے کہ انسان اللہ کي معرفت کے ساتھ ساتھ اس راستے کي بھي معرفت حاصل کرے جسے خداوند عالم نے ہم انسانوں کو کمال تک پہنچانے کے لئے مقرر کيا ہے تاکہ اسے پيش نظررکھتے ہوئے سستي اور کاہلي کئے بغير اپنے مقصد و ہدف تک رسائي کے لئے جدوجہد کرے۔

کتاب: نماز کی گہرائیاں، رہبر معظم سید علی خامنہ ای؛ سے اقتباس

 

متعلقہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *